Deobandi Books

حقوق العلم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

32 - 82
کہ ایسے مسائل بواسطہ اپنی بیبیوں کے بتلاتے ہیں بلکہ احتیاط کے لیے اس وقت ایسے مسائل کے متعلق رسائلِ دینیہ میں تصریحاً اس مشورہ کو چھاپ بھی دیا گیا ہے کہ شرم ناک مسائل لڑکیوں کے درس کے وقت نشان بناکر چھوڑ دے، یا تو مستورات اس کو سمجھا دیں، یا بعضے مسائل خود وہ سیانی ہوکر سمجھ لیں گی۔ اب بے حیائی کا کیا شبہ رہا۔
ایک شبہ یہ تھا کہ اہلِ علم میں باہم تحاسد و تنافس دیکھا جاتا ہے۔ سو اس کا مورد اگر عموماً سب ۔ُعلما۔َ  کو قرار دیاجائے تو مشاہدہ اس کی تکذیب کرے گا، اور بعض کی نسبت کہا جاتا ہے تو ہم بھی اس میں متفق ہیں، لیکن اس کا سبب آیا علم ہے یا قلتِ تربیت۔ اس کو سمجھ کر پھر اس اعتراض کی صحت و بطلان کو دیکھا جائے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر بضرورتِ تحصیلِ معاش یا حفظِ صحتِ خاندان کوئی شخص اپنے بیٹے کے لیے طبیب بننے کو ضروری قرار دے کر اس کا اہتمام کرے اور ساتھ ہی ساتھ اطبائے شہر میں تحاسد و تنافس بھی دیکھے تو کیا محض اس سبب سے وہ اپنی رائے کو بدل دے گا یا رائے کو بحال رکھ کر اس کی کوشش کرے گا کہ میرے بیٹے کے ایسے اخلاق نہ ہوں۔ اسی طرح یہاں بھی چاہیے کہ علمِ دین کا اہتمام کرو اور اخلاق کو درست کرو۔ اور یہ امر کہ ہر جگہ پہنچ کر دوسرے کے لیے گستاخی کرنا پڑتی ہے یہ کوئی مجبوری نہیں، خدا تعالیٰ ذرا قوت تدبیریہ عطا فرما دے تو بہت سہولت کے ساتھ اس سے بچ سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ خود تو ایسے مضمون کی ابتدا نہ کرے، اور اگر صاحبِ مجلس ایسا کرے تو کچھ جواب نہ دے بلکہ فوراً کوئی مسئلہ پوچھنا شروع کردے۔ بس یہ شخص محفوظ رہے گا بلکہ خود وہ بزرگ مولوی صاحب چوں کہ صاحبِ علم ہیں ان کو سمجھ جائیں گے اس لیے اپنی حرکت سے شرمندہ ہوں گے۔ غرض یہ ایسے امور نہیں کہ ان کی وجہ سے خود علومِ دینیہ سے اعراض یا انقباض اختیار کیا جائے۔
ایک شبہ یہ تھا کہ خط کا جواب نہیں دیتے۔ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ سب پر تو یہ اعتراض غلط ہے۔ آپ اگر کام کرنے والوں کو دیکھیں تو آپ تعجب کریں کہ ایک ایک آدمی اتنا کام کیسے کرتا ہے۔ حضرت مولانا گنگوہی ؒ  اب تک لوگوں کو یاد ہیں کہ کس التزام سے خط کا جواب دیتے تھے۔ ایک بار میں نے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے تھے اور اس وقت حضرت آشوبِ چشم میں علیل تھے۔ اسی حالت میں نہایت تکلیف اٹھا کر سب کا جواب لکھا۔ غالباً بیس تیس کے درمیان سوالات کا عدد تھا۔ اور آخر میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ روایات اس لیے نہیں لکھی کہ آشوب میں مبتلا ہوں اور نفس ہے، اب بھی چشم بند کردہ لکھتا ہوں۔ اور اگرایسے بزرگواروں کے پاس سے جواب نہ آوے تو یا تو اصل خط ان کے پاس نہیں پہنچا، یا جواب اُن کا ضائع ہوگیا، یا اصل سوال کے ساتھ جواب کے لیے ٹکٹ نہ گیا ہوگا۔ سو اگر جواب پر ٹکٹ لگادیں تو 
کہاں تک لگائیں۔ مثلاً اگر کسی کے پاس سولہ خط روزانہ کا اوسط ہو (چناں چہ احقر کے پاس اس اوسط سے کم ڈاک نہیں آتی) وہ اپنے پاس سے ٹکٹ لگایاکرے تو بارہ آنے یومیہ یعنی تیئس روپے ماہوار خاص اسی مد میں اس کو خرچ کرنا پڑے، تو اول تو 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 علومِ دینیہ سے بے رغبتی کے اسباب 9 1
3 اَلْبَابُ الْأَوَّلُ 10 1
4 دین کے اجزا 11 3
5 علمِ دین کے دو مرتبے 11 3
6 علم کے ہر مرتبہ کو سیکھنے کا شرعی حکم 13 3
7 ۔ُعلما۔َ سے علم حاصل کرنے کا طریقہ 13 3
8 دو شبہات کے جواب 14 3
9 کیا مولوی بننے سے پست خیالی او رکم ہمتی پیدا ہوتی ہے 17 3
10 باب اول کی تیسری فضل کے بعض اجزا کی ضروری توضیح اور تفریع 21 3
11 مال خرچ کرنے میں احتیاط بخل نہیں ہے 22 3
12 صرف عربی زبان جاننے کا نام مولوی نہیں ہے 23 3
13 باریک لکھنے پر اعتراض کا جواب 24 3
14 تواضع کو تذلل سمجھنا غلط ہے 24 3
15 کمروں کی صفائی نہ کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب 25 3
16 طلبہ کے کپڑوں پر شبہ کا جواب 26 3
17 طلبہ کا بے ڈھنگا پن 26 3
18 کیا مولوی بدتہذیب ہوتے ہیں 27 3
19 متفرق شبہات کے جوابات 33 3
20 ۔ُعلما۔َ کے درمیان عناد و حسد ہونے کا شبہ 33 3
21 ۔ُعلما۔َ کا آپس میں اختلاف کرنا 34 3
22 زمانہ کی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کا شبہ 36 3
23 ۔ُعلما۔َ کا لوگوں کے حال پر رحم نہ کرنے کا 37 3
24 تقریر و تحریر سے واقف نہ ہونے کا شبہ 38 3
25 دنیا کے قصوں سے بے خبر ہونے کا شبہ 39 3
26 اَلْبَابُ الثَّانِيْ 40 1
27 عمل کی ضرورت نہ ہونے کا غلط خیال 40 26
28 علومِ دینیہ کی طرف نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کی غلطی 41 26
29 احتمال، وسوسہ، طمع اور اشراف میں فرق 42 26
30 مدرسہ یا انجمن کے لیے سوال کرنے کا حکم 43 26
31 علما۔َ کو نصیحت 45 26
32 بعض مولویوں کی غلطی اور اس کا نقصان 47 26
33 بعض ۔ُعلما۔َ کا خیال غلط اور اس کا نقصان 48 26
34 اُ۔َمرا سے اجتناب کے وقت کیا نیت ہونی چاہیے 50 26
35 دنیاداروں کو دھتکارنا مناسب نہیں ہے 50 26
36 شہرت حاصل کرنے کی ایک حرکت 51 26
37 مناظرہ کرنا کب ضروری ہے 52 26
38 مناظرہ کے شرائط 55 26
39 مناظرہ کے شرائط و مفاسد سے چشم پوشی کا نتیجہ 56 26
40 پہلے ۔ُعلما۔َ کے مناظرہ پر اپنے مناظرہ کو قیاس کرنا درست نہیں ہے 57 26
41 وعظ کو طلبِ جاہ کا ذریعہ بنانے کی خرابی 58 26
42 مدارس کی بعض اصلاحات میں 59 1
43 مدارس میں بھی بعض اصلاحات کی ضرورت ہے 59 42
44 زبردستی چندہ لینا درست نہیں 60 42
45 دوامی چندہ نہ دینے والوں کے نام شائع کرنا بری بات ہے 61 42
46 صحیح حیلۂ تملیک 61 42
47 چندہ کی رقم میں عدمِ احتیاط 62 42
48 کھانے کے لیے طلبہ کو کسی کے گھر بھیجنا مناسب نہیں ہے 62 42
49 طلبہ کے اعمال اور وضع قطع پر روک ٹوک ضروری ہے 63 42
50 کمالِ علمی کے بغیر سندِ فراغ دینا نقصان دہ ہے 63 42
51 مدارس میں تقریر و تحریر کا انتظام کرنا چاہیے 63 42
52 طلبہ کی رائے کے مطابق تعلیم مناسب نہیں ہے 63 42
53 مدارس میں تجوید اور اخلاق کی کتاب داخلِ درس ہونا ضروری ہے 64 42
54 مدارس کا باہم تصادم بہت نقصان دہ ہے 64 42
55 مسلمانوں کو تنبیہ 65 42
56 بعض مدرسین کی کوتاہی 65 42
57 واعظین و مصنّفین اور مفتیوں کی اصلاحات 66 1
58 اہلِ علم کا وعظ نہ کہنا غلط ہے 66 57
59 بعض واعظین کی کوتاہیاں 67 57
60 تصنیف میں کوتاہیاں،اصلاحات متعلقہ تصنیف 67 57
61 فتویٰ دینے میں کوتاہیاں 67 57
62 متفرق اصلاحات 69 1
63 اہلِ علم کا لباس وغیرہ میں تکلف کرنا نامناسب ہے 69 62
64 اہلِ دنیا کا سلوک ۔ُعلما۔َ کے ساتھ 70 62
65 ناصح الطلبہ 71 62
66 طلبہ میں انقلاب 72 62
67 طلبہ کی نااہلی کا غلط ثمرہ 73 62
68 عو ام کا غلط نظریہ 73 62
69 علما۔َ سے درخواست 74 62
70 طلبہ میں بداستعدادی کے اسباب 74 62
71 مدرسین کو چاہیے کہ طلبہ کی استعداد سے کام لیں 75 62
72 طلبہ کی فہم کی قوت کو کام میں لانے کی ضرورت ہے 75 62
73 ہر مضمون کی تقریر استاد نہ کیا کریں 77 62
74 طلبہ سے کتاب حل نہ کرانے کا عذر 78 62
75 مدرّسین سے گزارش 79 62
76 کم عمر طلبہ کی تربیت کا طریقہ 79 62
77 طلبہ کو بے تکلفی اور سادگی اپنانی چاہیے 80 62
Flag Counter