کہ ایسے مسائل بواسطہ اپنی بیبیوں کے بتلاتے ہیں بلکہ احتیاط کے لیے اس وقت ایسے مسائل کے متعلق رسائلِ دینیہ میں تصریحاً اس مشورہ کو چھاپ بھی دیا گیا ہے کہ شرم ناک مسائل لڑکیوں کے درس کے وقت نشان بناکر چھوڑ دے، یا تو مستورات اس کو سمجھا دیں، یا بعضے مسائل خود وہ سیانی ہوکر سمجھ لیں گی۔ اب بے حیائی کا کیا شبہ رہا۔
ایک شبہ یہ تھا کہ اہلِ علم میں باہم تحاسد و تنافس دیکھا جاتا ہے۔ سو اس کا مورد اگر عموماً سب ۔ُعلما۔َ کو قرار دیاجائے تو مشاہدہ اس کی تکذیب کرے گا، اور بعض کی نسبت کہا جاتا ہے تو ہم بھی اس میں متفق ہیں، لیکن اس کا سبب آیا علم ہے یا قلتِ تربیت۔ اس کو سمجھ کر پھر اس اعتراض کی صحت و بطلان کو دیکھا جائے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر بضرورتِ تحصیلِ معاش یا حفظِ صحتِ خاندان کوئی شخص اپنے بیٹے کے لیے طبیب بننے کو ضروری قرار دے کر اس کا اہتمام کرے اور ساتھ ہی ساتھ اطبائے شہر میں تحاسد و تنافس بھی دیکھے تو کیا محض اس سبب سے وہ اپنی رائے کو بدل دے گا یا رائے کو بحال رکھ کر اس کی کوشش کرے گا کہ میرے بیٹے کے ایسے اخلاق نہ ہوں۔ اسی طرح یہاں بھی چاہیے کہ علمِ دین کا اہتمام کرو اور اخلاق کو درست کرو۔ اور یہ امر کہ ہر جگہ پہنچ کر دوسرے کے لیے گستاخی کرنا پڑتی ہے یہ کوئی مجبوری نہیں، خدا تعالیٰ ذرا قوت تدبیریہ عطا فرما دے تو بہت سہولت کے ساتھ اس سے بچ سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ خود تو ایسے مضمون کی ابتدا نہ کرے، اور اگر صاحبِ مجلس ایسا کرے تو کچھ جواب نہ دے بلکہ فوراً کوئی مسئلہ پوچھنا شروع کردے۔ بس یہ شخص محفوظ رہے گا بلکہ خود وہ بزرگ مولوی صاحب چوں کہ صاحبِ علم ہیں ان کو سمجھ جائیں گے اس لیے اپنی حرکت سے شرمندہ ہوں گے۔ غرض یہ ایسے امور نہیں کہ ان کی وجہ سے خود علومِ دینیہ سے اعراض یا انقباض اختیار کیا جائے۔
ایک شبہ یہ تھا کہ خط کا جواب نہیں دیتے۔ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ سب پر تو یہ اعتراض غلط ہے۔ آپ اگر کام کرنے والوں کو دیکھیں تو آپ تعجب کریں کہ ایک ایک آدمی اتنا کام کیسے کرتا ہے۔ حضرت مولانا گنگوہی ؒ اب تک لوگوں کو یاد ہیں کہ کس التزام سے خط کا جواب دیتے تھے۔ ایک بار میں نے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے تھے اور اس وقت حضرت آشوبِ چشم میں علیل تھے۔ اسی حالت میں نہایت تکلیف اٹھا کر سب کا جواب لکھا۔ غالباً بیس تیس کے درمیان سوالات کا عدد تھا۔ اور آخر میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ روایات اس لیے نہیں لکھی کہ آشوب میں مبتلا ہوں اور نفس ہے، اب بھی چشم بند کردہ لکھتا ہوں۔ اور اگرایسے بزرگواروں کے پاس سے جواب نہ آوے تو یا تو اصل خط ان کے پاس نہیں پہنچا، یا جواب اُن کا ضائع ہوگیا، یا اصل سوال کے ساتھ جواب کے لیے ٹکٹ نہ گیا ہوگا۔ سو اگر جواب پر ٹکٹ لگادیں تو
کہاں تک لگائیں۔ مثلاً اگر کسی کے پاس سولہ خط روزانہ کا اوسط ہو (چناں چہ احقر کے پاس اس اوسط سے کم ڈاک نہیں آتی) وہ اپنے پاس سے ٹکٹ لگایاکرے تو بارہ آنے یومیہ یعنی تیئس روپے ماہوار خاص اسی مد میں اس کو خرچ کرنا پڑے، تو اول تو