صحیح غلط ہونے کا اندازہ ہوسکے۔ سو تعصب کے معنی ہیں ناحق کی پچ کرنا۔ پس کسی پر تعصب کا حکم لگانا موقوف اس پر ہے کہ پہلے اس کے دعوے کا باطل ہونا ثابت کیا جائے۔ سو جن مواقع پر حضرات معترضین اہلِ علم پر تعصب کا الزام لگاتے ہیں ان میں خود اکثر معترضین ہی متمسک بالباطل ہوتے ہیں اور اہلِ علم کو ابطالِ باطل پر متعصب قرار دیتے ہیں۔ سو ظاہر ہے کہ اس صورت میں معترضین ہی متعصب کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر تعصب سے مراد مطلق غضب و تشدد ہے اور مطلق غضب و تشدد کو بھی اخلاقِ رذیلہ میں شمار کیا جاتا ہے، تو یہ ایک سخت غلطی اور علمِ اخلاق سے ناواقفی ہے۔ کیا غصہ اور سختی کا کوئی موقع علمِ اخلاق میں محمود نہیں بتلایا گیا؟ کیا اگر کسی کو عفیفہ ماں کے متعلق براہِ شرارت سوال کرے کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کی والدہ ایک زمانہ میں چکلہ میں بیٹھا کرتی تھیں تو کیا کوئی شخص ٹھنڈے دل سے اس سوال کو سن کر ٹھنڈے دل سے اس کی تغلیط کرکے اس تغلیط پر دلائل قائم کرے گا، یا اگر ایسا کیا تو ۔ُشر۔َفا اس کو بے غیرت قرار نہ دیں گے، یا وہ شخص بے خود ہوجاوے گا اور غضب و شدت کو کام میں لاوے گا، اور ۔ُعقلا۔َ کے نزدیک وہ غیور اور باحمیت قرار دیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غضب کی جگہ غضب محمود ہے۔ حکما کا قول ہے:
درشتی و نرمی بہم دربہ است
چو فاصد کہ جراح و مرہم نہ است
تعجب ہے کہ ماں کے لیے تو اگرچہ وہ واقع میں کبھی ایسی رہی بھی ہو بے تاب ہوجانا اخلاقِ حمیدہ میں داخل ہو، اور دین کے لیے اس پر اعتراض سن کر حالاں کہ وہ واقع میں قابل اعتراض بھی نہیں ہے ذرا متغیر ہوجانا اخلاقِ رذیلہ میں داخل ہو، خاص کر جب کہ معترض مسلمان بھی ہو اس کی اور زیادہ شکایت پیدا ہوکر زیادہ تغیر ہوجانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار سے مناظرہ کرنے کے وقت میں اعتراض سن کر اتنا غصہ نہیں آتا بلکہ اگر واقعات کو تتبع کیا جاوے تو جتنا مار گالیاں سننے والا بے تاب ہوجاتا ہے اہلِ علم باوجود اس کے کہ ماں سے زیادہ دین ان کو پیارا ہے اور اس میں تو احتمال لوث کا ہوسکتا ہے اور دین میں کہ احتمال ہی نہیں، اور اس حیثیت سے اہلِ علم کو حق تھا کہ دین کے متعلق کچھ بے ہودگی سن کر اس شخص سے زیادہ بے تاب ہوجاتے، مگر پھربھی وہ بہت ضبط کرتے ہیں اور بجز تیزی لہجہ کے کوئی ناملائم لفظ ان کے منہ سے نہیں نکلتا،اس سے زیادہ صبر وتحمل کیا ہوگا؟ انصاف شرط ہے۔ رہا عجز عن الجواب سو کہیں تو سوال جہالت کا ہوتا ہے اس کے لیے حکما کاقول ہے:
جواب جاہلاں باشد خموشی
اور کہیں سائل کے فہم سے برتر ہوتا ہے اس کے لیے حکما کا قول ہے: