کا خط بے پڑھے ہی اگرچہ اس میں ٹکٹ بھی ہو پھاڑ کر ردّی میں ڈال دیا جاتا ہے، پھر اس میں عربی کی کیا تخصیص ہے؟ بس اتنا فرق ہے کہ اگر اہلِ علم میں ان اخلاق کا کوئی اثر
ہے اکثر منشا اس کا دین ہے اور اہلِ ترقی میں جتنا کچھ اثر ہے منشا اس کا دنیا ہے۔ مثلاً مولویوں کو دین کی بات پر غصہ آئے گا اور ان حضرات کو دنیا کی بات پر آئے گا۔ چوں کہ دین کی خود وقعت ہی ان کے قلب میں نہیں اس کے لیے ان کو جوش بھی نہیں آتا۔ اس سے اپنے کو حلیم اور مولویوں کو تند خود قرار دیا ہے۔ وعلیٰ ہذا اور امور اعتراضیہ میں بھی۔ یہ تو جواب الزامی تھا۔
اور تحقیقی جواب یہ ہے کہ یہ شبہ بالکل غلط ہے کہ ۔ُعلما۔َ کو نفسِ سوال پر غصہ آتا ہے۔ جو شخص ان کی صحبت طویلہ ختیار کرے اس کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ حضرات سوال میں کتنا غصہ کرتے ہیں۔ غصہ اگر آتا ہے تو وہ دوسری بات پر آتا ہے۔ وہ یہ کہ سوال ایک تو بطور استفادہ کے ہوتا ہے یعنی سچ مچ کسی شبہ کا رفع ہی کرنا ہے اور وہ سوال بھی ضرورت کا ہے۔ اس پر تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص کسی عالم کا غصہ لانا ایک جگہ بھی ثابت نہیں کرسکتا۔ اور ایک سوال بطور تعنت یا تمسخر و مشغلہ یا محض اعتراض و الزام کے ہوتا ہے۔ چوں کہ اس میں شریعت کی توہین ہوتی ہے تو جس کے دل میں شریعت کی عظمت ہوگی وہ اس توہین کو کب گوارا کرے گا اور اس ناگواری کے سبب اس کو غصہ کیسے نہ آوے گا۔
اسی طرح بعض اوقات سوال میں مخاطب کی اہانت ہوتی ہے۔اس پر ناگواری بھی امرِ طبعی ہے اور یہ مذموم نہیں۔ اسی طرح اگر فضول سوال کیا یا فضول ہونے کے ساتھ سائل کے فہم کے لائق بھی نہ ہوا اور سائل اس سمجھانے پر بھی کہ یہ سوال لایعنی ہے باز نہ آیا تو اس وقت غصہ آجانا طبعِ سلیم کا مقتضا ہے جو کہ بجائے خود ایک کمال مطلوب ہے۔ چناں چہ سید العلماء والحکماء حضور ۔ُپر نور ﷺ سے خود بعضے لایعنی سوالوں پر غصہ فرمانا احادیثِ کثیرہ میں وارد ہے۔ کیا اگر کوئی شخص عدالت کی توہین کرے یا عدالت سے کچھ فضول سوال کرے، ادنیٰ سی بات ہے کہ درخواست پر ٹکٹ لگانا اس کی نسبت سے پوچھنے لگے کہ ایسا قانون کیوں مقرر کیا گیا درخواست بلاٹکٹ کیوں نہیں لی جاتی؟ یا اس فیس سے نصف فیس کیوں نہ مقرر ہوئی؟ کیا توہین کو جرم اور اس فضول سوال کو ناگوار اور اگر باز نہ آئے تو کیا موجبِ غضبِ حاکم نہ کہا جائے گا؟ کیا اس غضب کو اخلاقِ رذیلہ میں داخل کریں گے؟ پھر کیا ایک عالمِ شریعت کو اہانتِ شریعت پر یا فضول سوال کے اصرار پر چشم نمائی یا زجر کا بھی حق حاصل نہیں؟ اور کیا اس کو اخلاقِ رذیلہ میں شمار کیا جائے گا یا افعال جمیلہ میں؟
رہا تعصب اور عجز عن الجواب سو اول تو جب غصہ کا مبنیٰ بتلادیا گیا تو ان میں مبنی ہونے کا شبہ ہی نہ رہا، لیکن اگر ان کو کوئی شخص مستقل شبہ قرار دیں تو جواب تعصب کا یہ ہے کہ اول تعصب کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے تاکہ اس سے اعتراض کے