ایک یہ کہ ۔ُعلما۔َ کے علمِ دین کو ضروری کہنے کے معنی یہ سمجھے کہ ہر شخص کو پورا مولوی بنانا واجب ہے۔ سو خوب سمجھ لیا جائے کہ ۔ُعلما۔َ کا ہرگز یہ مقصود نہیں، کیوں کہ علمِ دین کا ضروری ہونا اور بات ہے اور پورا مولوی ہونا اور بات ہے۔ علمِ دین کی دو مقدار ہیں۔ ایک مقدار یہ کہ عقائد ضروریہ کی تصحیح کی جائے۔ عباداتِ مفروضہ کے ارکان و شرائط و احکامِ ضروریہ معلوم ہوں۔ مثلاً یہ کہ نماز کن کن چیزوں سے فاسد ہوجاتی ہے۔ کن کن صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔ اگر سفر پیش آوے کتنے سفر میں قصر ہے، اگر امام کے ساتھ پوری نماز نہ ملے تو بقیہ کس صورت میں کس طرح پوری کرے، قضا کے کیا احکام ہیں، زکوٰۃ کن اموال میں واجب ہے، اور اس کے ادا میں کیا کیا شرائط ہیں۔ علی ہذا حج اور صوم کے احکام۔ اور یہ کہ نکاح کن کن عورتوں سے حرام ہے۔ کن الفاظ سے نکاح جاتا رہتا ہے۔ عدت وولایتِ نکاح کے کیا احکام ہیں۔ رضاعت کے اثر سے کون کون سے رشتے حرام ہوجاتے ہیں۔ مبادلۂ اموال میں کیا کیا رعایت واجب ہے۔
کسی جائیداد یا آدمی کی اجرت ٹھہرانے میں کون کون سی صورتیں جائز ہیں، کون سی ناجائز ہیں۔ فیصلہ قضایا کا (اگر یہ شخص صاحبِ حکومت ہے) حسبِ قوانینِ شرعیہ کس طرح ہوتا ہے (گو ان کے انفاذ پرقادر نہ ہو مگر جاننا اس لیے واجب ہے کہ دوسرے فیصلوں کے حق ہونے کا اور شرعی فیصلوں کے ناحق ہونے کا اعتقاد نہ کر بیٹھے)۔ کون کون لباس حلال ہیں، کیا کیا حرام ہیں۔ نوکریاں کون جائز ہیں کون ناجائز ہیں (اگرچہ بدقسمتی سے ناجائز ہی میں مبتلا ہو مگر علمِ احکام سے اس کو قبیح تو سمجھے گا۔ اور دو جرموں کا مرتکب تو نہ ہوگا (ایک مباشرت فعلِ ناجائز، دوسرے اس کو ناجائز نہ سمجھنا)۔ ماکولات و مشروبات میں کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے۔ اسبابِ تصریح میں کس کا استعمال درست ہے کس کا نادرست ہے۔ اخلاقِ باطنی میں محمود و مذموم کا امتیاز ہو، اس کے معالجہ کا طریق معلوم ہو۔ مثلاً ریا و کبر و غضب و حرص و طمع و ظلم وغیر ذلک کی حقیقت جانتا ہو تاکہ اپنے اندر ان کا ہونا نہ ہونا معلوم ہو، پھر بعد ہونے کے ان کے ازالہ کی تدبیر کرسکے اور کوتاہی پر استغفار کیا کرے۔ یہ سب مقدار علم کی عام طو رپر ضروری ہے، کیوں کہ بدون ان کے جانے ہوئے اکثر اوقات مصیبت اور ناخوشیٔ حق تعالیٰ میں مبتلا ہوگا۔
ہم نے ان احکام سے ناواقف اور علومِ معاش کے اعلیٰ درجے کے واقف لوگوں کو سخت غلطیاں کرتے دیکھا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ متنبہ کرنے سے بھی متنبہ نہیں ہوتے، کیوں کہ ان علوم سے مناسبت ہی نہیں۔ ایسے نمازیوں کو وطن میں عارضی قیام کے طور پر آنے میں قصر کرتے دیکھا ہے۔ زکوٰۃ چندۂ حجاز ریلوے میں دیتے ہوئے پایا ہے۔ روزہ میں سگریٹ پینے کو بعضے مفسدِ صوم نہیں سمجھتے۔ حج میں بے سیے ہوئے اور بنیان کے طور پر بنے ہوئے کپڑے کو گو وہ پاجامہ کرتہ ہی ہو پہننے کو بعضے اُ۔َمرا نے جائز سمجھا۔ حقیقی بھانجے کی دختر سے نکاح حلال جاننے والا میں نے دیکھا ہے۔ چاندی