تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ہوتی ہی ہے جیسا کہ مولانا روم فرماتے ہیں : اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست رب الناس را باجان ناس یعنی حق تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ ایک ایسا اتصال یعنی نسبت حاصل ہے جس کی نہ تو کیفیت کا بیان ہوسکتاہے اور نہ کسی چیز پر اسکو قیاس کیا جا سکتا ۔ ( تصوف اور نسبت صوفیہ بحوالہ مجموعۂ تالیفات ج:۴ص: ۱۴۳)ٍ چند احوال رفیعہ :۔ مشائخ کو حصول نسبت کے بعد جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے بہت سے بلند احوال حاصل ہوتے ہیں جن کی عوام الناس کو تو ہوا بھی نہیں لگتی اور وہ علماء جو صرف علم کے ظاہر پر اکتفا کئے رہتے ہیں اور قلب و باطن کی طرف توجہ نہیں کرتے وہ بھی ان سے اکثر محروم رہتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ان احوال رفیعہ میں سے چند ایک کو شمار کرایا ہے ۔ اور حق تو یہ ہے کہ ان میں سے بعض احوال اپنے تعارف کیلئے مبسوط مقالہ چاہتے ہیں ، کیونکہ ہمارے دور میں یہ چیزیں نامانوس اور اجنبی بن چکی ہیں ۔نہ صرف اجنبی بلکہ ستم ظریفوں نے اپنی کوتاہی ٔعقل کی وجہ سے انہیں اعتراضات کا ہدف بھی بنا رکھا ہے ، اس لئے ضرورت ہے کہ ان کی حقیقت واضح کردی جائے ، لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحییٰ من حی عن بینۃ لیکن اس مقالہ میں زیادہ بسط کی گنجائش نہیں ، یونہی یہ مقالہ طویل ہوگیا ہے تاہم اختصار کے ساتھ ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ (۱) سالک کو حصول نسبت کے بعد ایک عظیم القدر حال یہ نصیب ہوتا ہے کہ وہ نفس کی شدید کشاکش سے نجات پاکر اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کو دوسری تمام چیزوں پر ترجیح دیتا ہے ، اس کا ایک ہی مطمح نظر رہتا ہے کہ حق تعالیٰ راضی ہوجائیں اس کے لئے وہ سو طرح کے جتن کرتا ہے ۔ (۲) اسی طرح اس کو ایک بڑی دولت یہ حاصل ہوتی ہے کہ اس پر اﷲ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خشیت کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ اس کے آثار قلب سے چھلک کر بدن اور دوسرے اعضا پر ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔