تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
اور اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہیں تھی، انھیں خدام نے پہلی صف میں لا کھڑا کیا، اور انھوں نے کھڑے ہوکر نماز شروع کردی اور اتنی طویل نماز پڑھی کہ میں حیرت زدہ رہ گیا، شاید وہ صلوۃ التسبیح تھی،بہت اطمینان سے رکوع و سجود کے ساتھ انھوں نے نماز ادا کی، سلام پھیرنے کے بعد خادم نے اٹھاکر پھر کھڑا کیا، اب چار رکعت انھوں نے مختصر مگرباطمینان ادا کی، پھر جمعہ کی نماز اور اس کے بعد کی سنتیں ادا کیں ، نماز میں ہوتے تو اٹھنے بیٹھنے اور رکوع و سجود کسی میں سہارے کی ضرورت نہ ہوتی، اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد سہارے کی ضرورت پڑتی، میں حیرت سے دیکھتا رہاکسی سے پوچھا کہ کون بزرگ ہیں ؟ بتانے والے نے بتایا کہ حضرت ناظم صاحب ہیں ۔ جامعہ مظاہر علوم جن بزرگوں کے زیر سایہ پروان چڑھا، وہ سب علم شریعت کے ساتھ علم طریقت کے بھی جامع تھے، اس لئے جامعیت کے ساتھ اتنی قد آور شخصیتیں پیدا ہوئیں کہ ان سے ایک دنیا کی دنیا روشن ہوئی، ان میں سے مزید چند بزرگوں کا اجمالاً تذکرہ کرتا ہوں ۔(۱)حضرت مولانا امیر باز خاں صاحب سہارنپور ی علیہ الرحمہ جامعہ مظاہر علوم کے ابتدائی فارغین میں ہیں ۔ ۱۲۸۷ھ میں فارغ ہوئے، اور راہ طریقت میں حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب سہارنپوری سے بیعت ہوئے، جو سلسلۂ قادریہ و نقشبندیہ کے بڑے اصحاب نسبت میں تھے، احوال العارفین میں لکھا ہے کہ: آپ خلیفۂ اول اور منتظم خانقاہ تھے، واعظ، خطیب، مفتی، قاضی اور مجاہد، صغیر وکبیر تھے، آپ یوپی اور پنجاب کے علاقوں میں دورے کرتے، جس میں ارشاد و تلقین اور دعوت الی اﷲ غرض ہوتی تھی، چنانچہ حضرت مولانا عبد اﷲ صاحب جلال آبادی ثم کرنالوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ ایک دفعہ کرنال تشریف لائے، وہاں دو ماہ قیام فرمایا، آپ کے قدوم میمنت لزوم سے عجیب و غریب معاملات کرامتوں کا ظہور ہوا، گویاسنت نبوی ا کا ایک آفتاب ہدایت بزرگی اور اجلال کے ساتھ افق سے طلوع ہوا، اور شرک و بدعت کی