تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
میں چاہتا ہوں کہ ہمیشہ آپ کی محبت میں زندہ رہوں ، مٹی ہوجاؤں ، اور آپ کے پاؤں کے نیچے زندگی بسر کروں ، مجھ خستہ کا مقصود ساری کائنات میں بس آپ ہیں ،چاہتا ہوں کہ آپ کیلئے مروں اور آپ کیلئے جیوں ۔ آپ تصوف کی چھوٹی بڑی تمام کتابیں جو معتبر ائمۂ صوفیہ نے لکھی ہیں ، پڑھ جایئے ، ان کے اقوال و فرمودات پر نظر ڈال لیجئے ، ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرلیجئے ، سب کا حاصل اور خلاصہ یہی نکلے گا کہ اللہ کی عبادت ہو، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ ہو، اور پوری زندگی اس کی بندگی و طاعت کے سانچے میں ڈھل جائے ، بس بندہ کی تمام تر کوشش یہی ہو۔ اس جگہ حضرات صوفیہ کی تالیفات سے ایسے اقوال و عبارات نقل کئے جا سکتے ہیں جو مذکورہ بالا مضمون کی دلیل ہوں ، مگر اسکی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ یہ بات ایسی عیاں اور معروف ہے کہ اس کے لئے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ، تصوف کا ماحصل اور صوفیہ کی ساری تگ ودو کا حاصل بس یہی ہے کہ زندگی وموت کا محور رضائے باری تعالیٰ ہوجائے ۔ یہاں ایک لمحہ غور کیجئے ، جو کچھ تصوف کا مقصود ذکر کیا گیا ہے ، جس پر تمام صوفیہ کا اتفاق ہے ، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اصل ایمان سے علیحدہ کوئی چیز ہے ، درحقیقت یہی ایمان ہے ، البتہ ایمان میں کبھی اضمحلال آجا تاہے ۔ اس پر نفسیانیت کی کدورتیں ، اور غفلت کے گردوغبار چھا جاتے ہیں ،معصیت کے امراض اسے ضعیف اور بے جان بنا دیتے ہیں ، تو کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کدورتیں ، یہ گردوغبار اور یہ ضعف و اضمحلال دور کرکے اسے صاف ستھرا ، قوی اور جاندار بنادیا جائے، اسی کوشش اور جدوجہد کو عام اصطلاح میں تصوف سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اتباع سنت : یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ایمان کی دولت ہمیں نبی اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے سے حاصل ہوئی ہے، ان پر ایمان لانا ، ان کو واجب الطاعت ماننا، ان سے قلبی محبت و لگاؤ رکھنا ، اور ان کے نقوش قدم پر چلنا ، ایمان میں داخل ہے، حضور اکرم ا پر ایمان اور ان کے اتباع کے بغیر اگر کوئی شخص چاہے کہ رضا ئے