تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ تقریب ۱۹۹۳ء کا کوئی مہینہ تھا ، غالباً اپریل ! اس خاکسار کی حاضری دارالعلوم دیوبند میں ہوئی ، رسالہ دارالعلوم کے فاضل مدیر مولانا حبیب الرحمن قاسمی سے گفتگو ہورہی تھی ، گفتگو کے دوران یہ بات آئی کہ تصوف وسلوک اور احسان وطریقت جو علماء دیوبند کے خصائص وامتیازات میں ہے ، جن حضرات نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ، اور جن بزرگوں کے فیض تعلیم اور فیضان صحبت ونظر سے یہ اصحاب با کما ل اور مقناطیسی شخصیات کے مالک ہوئے ، اور پھر دوسرے لوگ ان کی خدمت میں رہ کر آفتاب وماہتاب بنے ، جن کے نورِ باطن اور حرارتِ ایمان سے ، امت مسلمہ کے قلوب اب تک روشن اور گرم ہیں ، یہ سب حضرات شریعت وطریقت کے جامع ، تصوف وسلوک کے شناور اور جذب وحال کے ذوق آشنا تھے ۔ مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ اور ان کے اولاد واحفاد ، پھر اسی سلسلہ کی دو عظیم الشان شخصیتیں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اور حضرت مرزا مظہر جان جاناں ، اور ان دونوں کے سلسلے ، ان کے بعد مجاہد کبیر امیر المومنین حضرت سید احمد شہید اور ان کے دو بڑے رفقاء حضرت شاہ محمد اسمٰعیل شہید اور حضرت مولانا عبد الحی صاحب اور ان کا پورا قافلہ ، ان سب حضرات کی بنیادی دولت اور ان کا اصل سرمایہ شریعت وطریقت سے عبارت تھا ، پھر یہ سلسلہ منتقل ہوتا ہوا مدرسہ دیوبند کے بانیوں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی تک آیا ، ان حضرات کا جذبۂ عمل ، اخلاص وللٰہیت اور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بے قراری اور تڑپ ، اگر انصاف کیاجائے تو اس کی بنیاد میں یہی تصوف وسلوک کا جذبہ کارفرما نظر آئے گا ۔ پھر جو لوگ دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوئے ، اور اس چشمۂ شیریں سے سیراب