تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ عرض مرتب مشہور سیاسی رہنما ، رئیس الاحرار مولانا حبیب ا لرحمن لدھیانوی نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی علیہ الرحمہ سے سوال کیا کہ : تصوف کیا ہے ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ نے اس کا نہایت مختصر جواب دیا ، مگر اسی میں سارے تصوف کا خلاصہ آگیا ۔ فرمایا : تصوف صرف تصحیح نیت کا نام ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ، جس کی ابتداء إنما الاعمال بالنیات سے ہوتی ہے ، اور انتہا أن تعبد اﷲ کأنک تراہ پر ہوتی ہے ، یہ سارے تصوف کا منتہا ہے ، اسی کو نسبت کہتے ہیں ، اسی کو حضوری کہتے ہیں ۔ سارے پاپڑ اسی کیلئے بیلے جاتے ہیں ، ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے ، مجاہدہ ومراقبہ بھی اسی لئے ہے ، اور اﷲ جل شانہٗ اپنے لطف وکرم سے کسی کو اور طرح سے یہ دولت عطاکردے تو ، تو اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں ۔ ( آپ بیتی ج:۱ ،ص: ۴۷ملخصاً) یہ ہے تصوف کی حقیقت اور اس کا خلاصہ ، اس کی اہمیت وضرورت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ، مگر عہد حاضر میں بے عمل اور ناکارہ افراد کا ایک ہجوم ہے جسے مسلسل یہ اصرار ہے کہ یہ ایک غیر اسلامی فعل ہے ، تاکہ اس سے اس کی بے عملی اور ناکارگی کیلئے سند جواز فراہم ہوجائے ، اس لئے آسان نسخہ یہی ہے کہ جو عمل نفس پر دشوار اورگراں ہو اس کا انکار ہی کردیا جائے تاکہ اس کے کرنے یا نہ کرنے سوال ہی ختم ہوجائے ۔ یہ فکر وخیال جو عین نفس کے موافق ہے ، بہت تیزی سے فروغ پارہا ہے ، اس صورتحال کو دیکھ کر باربار دل میں یہ خیال آتا رہا کہ ایک ایسا رسالہ شائع کیاجائے ، جو تصوف