تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ہے کہ صالح بھی ہو اور مصلح بھی ہو ،تاکہ جو مرض باطنی بیان کرے اس کو بہت توجہ سے سن کر اس کا علاج تجویزکرے ، اور جو علاج تجویزکرے اس سے دم بدم نفع ہوتاچلا جائے، اور اس کے اتباع کی بدولت روز بروز حالت درست ہوتی جائے ۔ جس شخص میں یہ علامات ہوں تو پھر یہ نہ دیکھے کہ اس سے کوئی کرامت صادر ہوتی ہے یانہیں ،یا یہ شخص صاحب تصرفات ہے یا نہیں ، یا اس کو کشف ہوتا ہے یا نہیں ، یا یہ جو دعا کرتا ہے قبول ہوتی ہے یا نہیں ، کیونکہ یہ امور لوازم مشیخت یا ولایت سے نہیں ہے ۔ اسی طرح یہ نہ دیکھے کہ اس کی توجہ سے لوگ مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے ہیں یا نہیں ، کیونکہ یہ بھی لوازم بزرگی میں سے نہیں ہے ۔ اصل میں یہ ایک نفسانی تصرف ہے جو مشق سے بڑھ جاتا ہے ۔ یہ کام غیر متقی بلکہ غیر مسلم بھی کرسکتاہے ۔ اور اس سے چنداں نفع بھی نہیں ہے ، کیونکہ اس کے اثر کو بقا نہیں ہوتا۔ صرف مرید غبی کیلئے جو ذکر سے اصلاً متاثر نہ ہوتاہوچند روز تک شیخ کے اس عمل سے اس میں ایک گونہ تاثر و انفعال و قبول آثار ذکر کا پیدا ہوجاتا ہے،یہ نہیں کہ خواہ مخواہ لوٹ پوٹ ہی ہوجائے ۔ (شریعت و طریقت ص: ۶۴ بحوالہ تعلیم الدین )کچھ ضروری اور مفید ہدایات:۔ اگر کوئی شخص ایک شیخ کی خدمت میں خوش اعتقادی کے ساتھ ایک معتد بہ مدت تک رہے، مگر اس کی صحبت میں کچھ تاثیر نہ پائے تو دوسری جگہ اپنا مقصود تلاش کرے ۔ کیونکہ مقصود خدا تعالیٰ ہے کہ نہ کہ شیخ ، لیکن شیخ اول سے بد اعتقاد نہ ہو، ممکن ہے کہ وہ کامل و مکمل ہو مگر اس کا حصہ وہاں نہ تھا۔ اسی طرح اگر شیخ کا انتقال قبل حصول مقصود کے ہوجائے ، یا ملاقات کی امید نہ ہو ، جب بھی دوسری جگہ تلاش کرے۔ البتہ بلا ضرورت محض ہوسناکی سے کئی کئی جگہ بیعت کرنا بہت برا ہے، اس سے بیعت کی برکت جاتی رہتی ہے ،شیخ کا قلب مکدر ہوجاتا ہے ، نسبت قطع ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے ، اور ہر جائی مشہور ہوجاتا ہے ۔شیخ کو سب سے افضل سمجھنا :۔ مشہور ہے کہ اپنے پیر کو سب سے افضل سمجھے، ظاہراً اس میں اشکال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وفوق