تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
معمولی شفا مطلوب ہے اور دوسرے کو اعلیٰ درجہ کی شفادرکارہے۔ ٹھیک یہی حال مجاہدات کا ہے، از خود اگر کوئی مجاہدہ اختیار کیا جائے گا تو نقصان کا اندیشہ ہے ، اس کیلئے شیخ و راہبر کی ضرورت ہے،وہ موقع اور ضرورت کے مناسب مجاہدات تجویز کرے گا ۔ بعض لوگ بزرگوں کے حالات کی کتابیں پڑھتے ہیں ۔ ان میں ان کے بعض مشکل اور سخت مجاہدات منقول ہیں ۔ ان سے انہیں وحشت ہوتی ہے ۔ انہیں خیال کرنا چاہئے کہ ان حضرات سے بہت بڑے بڑے کام لینے تھے ۔ اس لئے ان سے مجاہدات بھی سخت کرائے گئے ۔ ورنہ عام اور معمولی آدمیوں کے سلسلے میں ایسے مجاہدے منقول نہیں ہیں ۔ یہ طبیب کی تجویز ہے اس پر غیر طبیب کو اعتراض کی گنجائش نہیں ہے ۔ اور یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ جن بزرگوں نے یہ مجاہدات کئے ہیں انہوں نے ان کے ذریعے بڑے بڑے کمالات حاصل کئے ۔ انہیں ان پر کوئی ا عتراض نہیں ہوا، لیکن آج کے بالشتیے، جن کو نہ ان مجاہدات کی ہوا لگی ۔ اور نہ انہیں اپنے زور نفس کو ہاتھ لگانے کا کبھی حوصلہ ہوا، انہیں ان مجاہدات پر اعتراض سوجھ رہا ہے ۔ دوستو! اگر تم سے نہیں ہوتا، نہ کرو ، مگر اعتراض تو نہ کرو ۔ یہی حال امراض کے اعتبار سے علاج کا ہے ۔ کبھی مرض شدید ہوتا ہے تو علاج میں بظاہر سختی ہوتی ہے ۔ ناواقف اسے سختی کہتاہے ۔ مگر واقف کار اسے عین شفقت تصور کرتا ہے ۔ آخر ڈاکٹروں کے آپریشن اور چیر پھاڑ کو کون سختی کہتاہے ۔مرض کی شدت اور علاج کی سختی :۔ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کی سوانح حیات ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں حضرت کا ایک ملفوظ ۔ منقول ہے ۔ فرماتے ہیں : ’’ اخلاق سیئہ بہت سے ہیں مگر اکثر نے دس میں محصور کر دیا ہے ۔ پھر ان دسوں کا خلاصہ تکبر کو بتایا ہے ، اگر یہ دور ہوجائے تو باقی خود دور ہوجاتے ہیں ۔ حضرت جنید