تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
طریقے متعین کئے ہیں ،ان کو نہ تو کبھی بدلا جا سکتاہے ۔ اور نہ انہیں ترک کیا جا سکتا ہے ۔ یہ ذرائع قرب و رضا کے ا عتبار سے تو ذرائع ہیں ورنہ وہ بذات خود مقصوداور عبادت ہیں ۔ مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ،تلاوت اور ذکر وغیرہ ۔ لیکن ان مقاصد کے حصول اور ان کے مذکورہ بالا وسائل کو عمل میں لانے کی راہ میں بہت سے موانع پیش آتے ہیں ، بہت سی رکاوٹیں اور اڑچنیں پڑتی ہیں ، ان موانع کو ہٹانے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے کچھ تدبیروں اور کچھ معالجات کی ضرورت پڑتی ہے ۔ شریعت نے ان معالجات اور تدبیروں کو کسی خاص شکل میں متعین نہیں کیا ہے ، انہیں تدبیروں اور انہیں معالجات کو اصطلاح صوفیہ میں ’’مجاہدات و ریاضات‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یہ مجاہدات نہ عبادت ہوتے اور نہ مقصود ، اگر کسی شخص کو بغیر مجاہدہ وریاضت کے مقصود حاصل ہوجائے تو اسے ان کی کچھ ضرورت نہیں ۔ حضرات صحابہ کو حضور اکرم ا کے فیض صحبت سے ان اصطلاحی مجاہدات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی ۔ ان کیلئے نماز، روزہ، تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی ہی کافی تھے ۔ ان کے بعدبھی خود صحابہ کی برکت، دنیادارانہ ماحول کے مغلوب ہونے کی وجہ سے ان مجاہدات کی زیادہ ضرورت نہ تھی ،مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ،نفوس پر دنیاداری اور غفلت کاغلبہ ہوتا گیا ، اب نماز ، روزہ ، تلاوت وغیرہ سب باقی ہیں ، مگر تزکیہ نفس اور خشوع و ادب کا پتہ نہیں ہے ۔ اس غفلت کو دور کرنے کیلئے ماہرین مناسب مجاہدے تجویز کرتے گئے ، آج بھی اگر کسی کی استعداد عالی ہو یا مرشد قوی تاثیر رکھتا ہو تو زیادہ مجاہدہ کی ضرورت نہیں پڑتی ۔نفس و شیطان کی رخنہ اندازی :۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایاتو فرشتوں کی طرح معصوم و بے خطا اور خواہشات و شہوات سے مبرا نہیں پیدا فرمایا ۔ اور نہ شیاطین کی طرح سراپا طغیان و بغاوت بنا کررکھا۔ بلکہ آگ پانی مٹی ، ہوا کے ا متزاج سے اس کا پتلہ اور ڈھانچہ بنایا ۔ اور پھر اپنے خاص امر سے اس میں لطیف اور پاکیزہ روح ڈال دی ۔ اس میں مذکورہ بالا چاروں عناصر کی خصوصیات بھی ہیں ۔ اور روحانیت و ملکوتیت کی