تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
پس محروم تو کردیا اور محرومی کا کوئی علاج نہیں کیا ۔ کہتے ہیں کہ اعمال مسنونہ کافی ہیں ۔ اس میں کیا شبہہ کہ وہ کافی ہیں ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اعمال مسنونہ کے جتنے مدعیان خام ہیں ، ذرا سی ٹھیس میں ان کے تمام دعووں کی ہوا نکل جاتی ہے ۔ بات یہ ہے کہ حضرات صحابہ کو رسول اللہا کی صحبت بابرکت اور نظر کیمیا اثر حاصل تھی ْ۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور مشق و مجاہدہ کی ضرورت نہ تھی ۔ آپ کی نظر کی تاثیر ہی سے قلوب کی کایا پلٹ ہوجاتی تھی ۔ لیکن اب جب کہ وہ دولت حاصل نہیں ہے ۔ ذکر کے رسوخ اور دلوں کے نرمانے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرورت پڑتی ہی ہے ۔ آج بھی مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی مرشد قوی النسبت اور زیادہ موثر ہواتو اس کے مریدین و متوسلین کو زیادہ محنت و مجاہدہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جیسے کوئی بہت کامل اور اعلیٰ درجہ کا استاذ ہو تو طلبہ کم محنت کرکے بھی کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضورا کرم ا کے دور میں یہ طریقے کہاں تھے ؟ ہم عرض کریں گے کہ طرق اور ذرائع کے بارے میں یہ سوال بیجا ہے،کہ حضور کے زمانے میں کہاں تھے ؟ ذرائع ضرورت کے و قت استعمال ہوتے ہیں ۔ آپ کے زمانے میں آپ کی صحبت بابرکت کے ہوتے ہوئے ان طرق کی ضرورت نہ تھی۔ آپ کے بعد ضرورت ہوئی ۔ جواز کی حدود میں رہ کر کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتاہے ۔ جیسے جہاد ایک شرعی فریضہ ہے، اس کی اقامت کیلئے ضرورت کے لحاظ سے جو چیز بھی جائز حدود میں ہوگی اسے اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر ذکر کے رسوخ کیلئے کوئی مناسب اور مؤثر طریقہ اختیار کیا جائے تو کیا حرج ہے ۔اشغال :۔ ’’شغل‘‘ بھی صوفیہ کا اصطلاحی لفظ ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دل کی توجہ کو کسی ایک نقطہ پرمرکوز کرنے کے لئے کوئی عمل کیا جائے ۔ تاکہ اس سے یکسوئی پیدا ہو، مثلاً لفظ اللہ موٹے حرفوں میں لکھ کر اس پر نگاہ جمائی جائے کہ پلک تک نہ جھپکے، اس سے قلب میں یکسوئی بھی حاصل ہوتی ہے اور اس پر کچھ ایسے اثرات بھی طاری ہوتے ہیں جن سے ذوق وشوق پیدا ہوتا ہے ، پھر قلب تشویشات سے خالی ہوکر ہمہ وقت متوجہ بحق رہتا ہے ۔