تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
بیعت :۔ حضرات مشائخ اور صوفیہ جب کسی سالک اور مرید کو اپنے حلقہ ٔ ارادت میں داخل کرتے ہیں ، اور آئندہ معصیت نہ کرنے کا عہد لیتے ہیں ،ا ور معصیت ہوجانے کی صورت میں توبہ کرلینے کا وعدہ کراتے ہیں ،نیز اعمال صالحہ پر استقامت اور سنت و شریعت کے اتباع کامل کامعاہدہ کراتے ہیں ۔ یہ سارے کام تو خود مرید اور سالک کے کرنے کے ہیں ۔ لیکن انسانی فطرت ہے کہ اپنے کسی عمل پر دوسرے کو گواہ بنا لیا جاتا ہے ، تو اس میں پختگی آجاتی ہے ، اور اس کا اہتمام بڑھ جاتا ہے ۔ ایک شخص جب اپنے شیخ و مرشد کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اور شریعت پر استقامت کا عہد کرتا ہے ،تو اس میں بڑی قوت آجاتی ہے۔ بیعت کا یہ طریقہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے یہاں اپنے امتیوں سے بیعت لینے کا عام دستور تھا ۔ امام نسائی نے اپنی کتاب میں مختلف امور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیعت لینے کا ذکر فرمایا ہے ۔ خود قرآن کریم میں ایمان و عمل صالح پر بیعت لینے کا ذکر موجود ہے ، ارشاد ہے : یٰایھا النبی اذا جاء ک المومنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ شیئا ولا یسرقن ولا یزنین ولا یقتلن اولادھن ولا یاتین ببھتان یفتــرینہ بین ایدیھن وارجلھن ولا یعصینک فی معروف فبـایعھن واستغفــر لھــن اﷲ ان اللّٰہ غفور رحیم ( سورہ ممتحنہ) اے نبی !جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس غرض سے آئیں کہ تمہارے ہاتھ پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ۔اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، کسی پر بہتان نہ باندھیں گی، اور معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی ، تو ان کو بیعت کرلو اور ان کیلئے اللہ سے ا ستغفار کرو، بیشک اللہ غفور رحیم ہیں ۔ یہ تو گناہوں سے اجتناب کے سلسلے میں بیعت ہے ۔ بعض مواقع پر جہاد پر بیعت لینے کا ذکر ہے ۔