تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
جواہرات حوالے کردے گا شعور کی عمر کو پہونچنے کے بعد یہ لڑکا صندوق لیکر اپنے باپ کے دوست کے پاس پہونچا اور اسے وصیت نامہ دکھایا، اس جوہری نے وصیت نامہ اور جواہرات اور سنگ ریزوں کو دیکھ کر کہا کہ میں یونہی چھانٹ کر جواہرات تم کو نہیں دے سکتا ۔ اس کی ایک شرط ہے ، وہ یہ کہ میری دکان پر تم پانچ سال تک کام کرو ، اس نے پانچ سال تک کام کیا، ان پانچ برسوں میں اسے جواہرات کی مکمل شناخت حاصل ہوگئی ۔ اب اس نے صندوق منگوایا اور قفل کھول کرکہا کہ اب تم خود پہچان لو ، اگر میں اسی وقت تمہیں دے دیتا تو جواہرات تو تمہیں مل جاتے لیکن نہ تم کو جواہرات کا علم حاصل ہوتا ، اور نہ ان کی قیمت معلوم ہوتی ، اس حکایت سے صحبت کی اہمیت کا خوب اندازہ ہوتاہے ۔صحبت کی برکت :۔ حکیم الامت حضرت تھانوی لکھتے ہیں کہ : ’’بھلا نری کتابوں سے بھی کوئی کامل ومکمل ہوا ہے ،موٹی بات ہے کہ بڑھئی کے پاس بیٹھے بغیر کوئی بڑھئی نہیں بن سکتا ، حتی کہ بسولہ بھی بطور خود ہاتھ میں لے کر اٹھائے گا تو وہ قاعدے سے نہ اٹھایا جائے گا ۔ بلا درزی کے پاس بیٹھے سوئی پکڑنے کا انداز بھی نہیں آتا، بلا خوش نویس کے پاس بیٹھے ، اور بلا قلم کی گرفت اور کشش دیکھے ہرگز کوئی خوش نویس نہیں ہوسکتا۔ غرض بدون کامل کی صحبت کے کوئی نہیں بن سکتا۔ (شریعت وطریقت ،ص: ۶۹، بحوالہ تصوف وسلوک ص:۱۱۱) صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند ہر کہ خواہد ہم نشینی با خدا گو نشنیند در حضور اولیاء یک زمانہ صحبتت با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا صحبت نیکاں اگر یک ساعت است بہتر از صد سالہ زہد وطاعت است نیک آدمی کی صحبت تم کو نیک بنا دے گی ، اسی طرح بد بخت کی صحبت تم کو بدبخت بنا دے گی ۔ جو شخص خدا کی ہم نشینی کا طالب ہو تو اس کو اولیاء کی صحبت میں بیٹھنا چاہئے، اللہ والوں کی تھوڑی دیر صحبت سو سالہ طاعت بے ریا سے بہتر ہے ۔ نیکوں کی صحبت اگر گھڑی بھر