تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
کل ذی علم علیم ۔ ہر صاحب علم سے بڑھ کر دوسرا عالم ہے ۔ اتنا سمجھے کہ میری تلاش سے زندہ لوگوں میں اس سے زیادہ نفع پہونچانے والا شخص مجھ کو نہیں مل سکتا۔(شریعت وطریقت بحوالہ تعلیم الدین)ریاضات ومجاہدات :۔ اہل تصوف کے یہاں تلاش مرشد کے بعد دوسرا اہم اور ضروری کام ریاضت ومجاہدۂ نفس ہے، اور یہ بات صرف اسی فن کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔ آدمی کوئی بھی کمال حاصل کرنا چاہے اسے بہر حال محنت و کوشش،کلفت ومشقت اور جگرکاوی اور پتہ ماری سے چارہ نہیں ۔ ایک کاشت کار سے لے کر ایک صاحب قرطاس وقلم تک جسے چاہیں دیکھ لیں ۔ اگر کسی نے کوئی کمال حاصل کیا ہے تو استاذ کی رہنمائی کے بعد وہ مجاہدۂ ومحنت ہی کا ثمرہ ہوگا۔ راتوں کوجاگنا ، دن کو تھکنا ، جسم کو مشقتوں کا عادی بنانا، سردی گرمی کی تکالیف سہنا ، کھانے پینے کے معمولات کا گڑ بڑ ہونا ، کبھی فاقہ کی نوبت آجانا ، کون سی ایسی مشقت ہے جو کسی اہم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے انسان نہیں برداشت کرتا۔ تحصیل علم کیلئے علم کے شیدائیوں نے جو مجاہدے کئے ہیں تاریخ کی داستانیں ان سے جگمگا رہی ہیں ۔ یہ مجاہدہ کسی ایک علم کی خصوصیت نہیں ہے ۔ تمام علوم کا یہی حال ہے ۔ دنیاوی علوم میں اگر کوئی کسی کمال کا طالب ہے تو اسے بھی محنت و مشقت کا وہی وطیرہ اختیار کرنا ہوگا ۔ جو دینی علوم کیلئے اختیار کیا جاتا ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہرکام کیلئے مجاہدہ مسلم ، ہر کمال کیلئے تحمل کلفت عین کمال، لیکن اگر صوفیہ قرب خداوندی کیلئے مجاہدہ کا نام لیں تو مورد طعن! یہ کہاں کا انصاف ہے ۔ دوسرے علوم و فنون کیلئے اگر کوئی استاذ اپنے شاگردوں سے محنت و مشقت لیتاہے، اس کے لئے اپنے تجربے سے کچھ اصول و قواعد اور طریقے متعین کرتاہے ۔ تو کسی صاحب کویہ خیال نہیں گزرتا کہ یہ اصول و قواعد کتاب و سنت اور سلف صالح سے منقول ہیں یا نہیں ؟ اس میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ حصول علم کیلئے یہ بات معین ہے یا نہیں ، اگر معین ہے تو مضائقہ نہیں کہ وہ طریقہ مسلمانوں سے لیا گیا ہے ، یا دوسری اقوام سے ، لیکن مقاصد تصوف کو حاصل کرنے کیلئے اگر ضرورت کی بنا پر یا سہولت کے واسطے کچھ تجربہ کاروں نے کچھ مجاہدے یا