تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
یہاں تک تصوف کی حقیقت اور اس کے مقاصد کے سلسلے میں اجمالی گفتگو کی گئی ہے ۔ اب مناسب یہ ہے کہ اس سلسلے میں قدرے تفصیلی بات بھی ہوجائے تاکہ تصوف کے متعلق لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے جو شکوک و شبہات عموماً دماغوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کا تصفیہ ہوجائے ، نیز اس باب میں علماء دیوبند …جو سلسلہ ٔ تصوف کے مجدد ہوئے ہیں … کا موقف بھی واضح ہوجائے ۔دین میں تصوف کا مقام :۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر مرحلہ میں اس کی رہنمائی کرتا ہے ، ولادت سے لیکر موت تک ، جتنے اور جن احوال سے آدمی گزرتا یا گزر سکتا ہے ، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ، خریدوفروخت ، معاملات و اخلاق ، دوستی ودشمنی ، نکاح و طلاق ، سیاست و حکومت ، عبادت واطاعت ، غرض ہر شعبۂ حیات کو اپنی کامل گرفت میں رکھتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ شریعت اپنے آخری پیغمبرا پر نازل فرمائی ہے ، اس طریقۂ حیات کے علاوہ اور کوئی دستور العمل معتبر اور لائق قبول نہیں ہے ، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ۔ ( سورہ آل عمران ) اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کا طالب ہوگا تو وہ مقبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا۔ پوری شریعت اور پورے دین پر غائرانہ نظر ڈالئے تو اصولی طور پر شریعت پانچ اجزاء پر مشتمل نظر آتی ہے ۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ارشاد فرماتے ہیں کہ : ’’ غور سے سن لیجئے ، دین کے پانچ اجزاء ہیں ، ایک جز تو عقائد کا ہے کہ دل سے اور زبان سے ا قرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس چیز کی جس طور پر خبردی ہے وہی حق ہے ۔ دوسرا جز عبادات ہیں ، یعنی نماز ، روزہ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ ۔ تیسرا جز معاملات ہیں ، یعنی احکام نکاح و طلاق ، حدود وکفارات ، بیع و شراء،