تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
مطلب یہ ہے کہ ظاہر حال تو ایسا ردی کہ لوگ اپنے پاس بٹھانا گوارا نہ کریں ، مگر خدا کے نزدیک ایسا درجہ کہ اگر کچھ زبان سے نکال دیں ، تو اﷲ تعالیٰ ان کی لاج رکھنے کے لئے وہی کردیتے ہیں ۔ صاحب سکینہ کے ان احوال کا ذکر کرکے شاہ صاحب پھر پہلی بات کا اعادہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ : ’’ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ایسے احوالِ رفیعہ جو مذکور ہوئے ، اور انھیں کے مانند دوسرے حالات عالیہ ، یہ سب اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اس شخص کا ایمان صحیح ہے ، اور اس کی طاعات عند اﷲ مقبول ہیں ، نورِ ایمان اس کے باطن میں سرایت کئے ہوئے ہے ، لہٰذا سالک کو چاہئے کہ ان احوال کو غنیمت سمجھے ، کیونکہ یہ سب اس کے ایمان کی دلیل ہے۔‘‘ ( مجموعۂ تالیفات مصلح الامۃ ج: ۴ ، ص:… ) یہ چند خدائی انعامات ہیں ، جو حق تعالیٰ کی جانب سے صاحب نسبت کو ملتے ہیں ، اتنے ہی پر بس نہیں ہے ، ان کے علاوہ اور بھی گنجہا ئے گرانمایہ ہیں ، جن سے سالکین نوازے جاتے ہیں ۔الہام : مثلاً ایک بڑی نعمت جو اصحاب نسبت کو ملتی ہے وہ الہام ہے ، الہام کی حقیقت یہ ہے کہ بغیر نظر واستدلال کے اﷲ تعالیٰ کوئی حقیقت بندے کے قلب میں القاء فرمادیں ، یا کسی غیبی مخلوق کے ذریعہ اطلاع بخش دیں جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ ں کی والدۂ محترمہ کے لئے ارشاد ہے : وَاَوْحَیْنَا إِلیٰ أُمِّ مُوْسیٰ أَنْ أَرْضِعِیْہِ ( سورہ قصص ) ہم نے موسیٰ کی ماں کی جانب وحی کی کہ دودھ پلاتی رہو۔ یہ وحی باتفاق مفسرین الہام ہے ، اسی طرح حضرت مریم کے متعلق قرآن میں ارشاد ہے : وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ یٰمَرْیَمُ جب فرشتوں نے کہا اے مریم