تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
چاہئے تھا لیکن چونکہ مبادی کی اہمیت ، مقاصد کی اہمیت پر موقوف ہے، کیونکہ مبادی مقصود نہیں ہوتے ، حصول مقصود کے ذرائع ہوتے ہیں ۔ مقصد جتنا رفیع اور وقیع ہوگا، اس کے مبادی ومقدمات اسی کے بقدر مہتم بالشان ہوں گے ، اسلئے پہلے مقاصد پر گفتگو کی گئی ۔ مقصد کی عظمت وجلالت کا جب انکشاف ہوگیا تو ظاہر ہے کہ جن ذرائع سے اس کا حصول ہوگا ، ان کو بجا لانا کس قدر ضرور ی ہوگا۔ مقصد تصوف کی تحصیل کیلئے جو ضروری مقدمات درکار ہیں ۔ان کو ہم تین بنیادی عنوانات پر تقسیم کر سکتے ہیں ۔ (۱) بیعت وصحبت (۲) ریاضت ومجاہدہ (۳) اذکار واشغال و مراقبات ۔بیعت و صحبت : جہاں تک انسانی طبیعت کا معاملہ ہے ، ہر زمانے کے عقلاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ انسانی طبیعت کے بناؤا ور بگاڑ میں جس قدر صحبت و معیت کا ------------------------------ (حاشیہ صفحہ گذشتہ کا) عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ ثلث من کن فیہ وجدبھن حلاوۃ الایمان ، من کان اللہ ورسولہ احب الیہ مما سواھما ومن احب عبداً لا یحبہ الا اللہ ومن یکرہ ان یعود فی الکفر بعد ان انقذہ اللہ منہ کما یکرہ ان یلقی فی النار ( بخاری ومسلم ) تین باتیں جس میں ہوں گی اسے ایمان کی حلاوت نصیب ہوگی ۔ ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسول ، دنیا کی ہر شے سے زیادہ اسے محبوب ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی سے محبت رکھے تو محض اللہ کے و اسطے محبت کرے ، تیسرے یہ کہ کفر میں لوٹنا اس کے نزدیک آگ میں گرنے کی طرح ہولناک بن جائے ۔ حلاوت ایمان کیا ہے ؟ امام نووی اس کا جواب دیتے ہیں ۔ استلذاذ الطاعات ، طاعات سے لذت یاب ہونا، و تحمل المشاق فی رضی اللہ عزوجل و رسولہ ، اللہ اور اسکے رسول کی رضامندی کیلئے دشواریوں کوجھیلنا ، ایثار ذلک علی عرض الدنیا ، اور متاع دنیا پر اسے ترجیح دینا ۔ ومحبۃ العبد ربہ وسبحانہ و تعالیٰ بفعل طاعتہ و ترک مخالفتہ وکذلک محبۃ رسول اللہ ﷺ اور بندے کا اپنے رب سے محبت کرناا س طرح کہ اس کی اطاعت میں سرگرم رہے ، اور اسکی خلاف ورزی سے بچتا رہے ۔ اور اسی طور پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی محبت رکھے ، ہم نے جن مشائخ صوفیہ جو واقعی تصوف کے صحیح نمائندے تھے کی سیرتوں کا مطالعہ کیا ہے ،یاہمیں ان کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا، ان کے پاس اس حلاوت ایمانی کے جتنے نمونے ہم نے دیکھے ، کہیں اور دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔کثر اللہ امثالہم ۔