تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
کرکے سوسو طرح اپنے رب کی خوشامد کر رہا ہے ۔ انہوں نے صبح کو شیخ خانقاہ سے عرض کیا کہ یہی کلمہ میں بھی پڑھتا تھا ۔ اور مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ، اور یہی کلمہ دوسرے لوگ پڑھ پڑھ کر بے حال ہوئے جا رہے تھے ۔ اس میں کیا راز ہے ۔ شیخ نے اول تو ٹالا کہ یہ لوگ دل کے ضعیف ہیں ، زود حس ہیں ،وغیرہ ۔لیکن پھر ان کی درخواست پر انہیں بھی ذکر تلقین کیا ، اس تلقین کے بعد جب وہ ذکر کیلئے بیٹھے تو شدت گریہ کی وجہ سے کلمہ ادا نہیں ہوتا تھا۔ بعد میں آکر عرض کیا کہ میں سمجھ تو نہیں سکا کہ کیا بات ہے ، مگر دل ہے کہ امنڈا چلا آتا تھا ۔ ان کیفیات کو حضرات صوفیہ اپنی خاص اصطلاح میں ’’احوال‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ احوال محض فضل خداوندی سے نصیب ہوتے ہیں ۔ ان کے ملنے نہ ملنے میں بندے کے اختیار کو دخل نہیں ہوتا۔ تا ہم عموماً تجربہ یہی ہے کہ بندہ جب اپنے کو یاد الٰہی میں کھپاتا ہے تو اس کی استعداد و قوت کے بقدر ان مواہب سے سرفراز کیا جاتا ہے ۔احوال رفیعہ :۔ ہندوستان کے مایۂ ناز اور مشہور عالم و محدث حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی قدس سرہ نے اپنی کتاب القول الجمیل میں تحریر فرمایا ہے کہ : ’’ جن لوگوں کو سکینہ پر دوام و استقامت نصیب ہوتی ہے ۔ انہیں یکے بعد دیگرے بلند احوال نصیب ہوتے رہتے ہیں ۔ سالک کو چاہئے کہ ان احوال کو غنیمت سمجھے اور یہ جان لے کہ یہ حالات اس بات کی علامت ہیں کہ اس کی طاعت حق تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہے ۔ اور یہ کہ اس کا باطن نفس اور دل کی گہرائی اطاعت الٰہی سے متاثر ہے ۔ ( حضرت شاہ صاحب کا یہ مضمون مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب ؒ کی کتاب ’’تصوف اور نسبت صوفیہ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ اصل کتاب القول الجمیل سے بھی اس کی مراجعت کر لی گئی ہے ) شاہ ولی اللہ ایک ایسے عالم و محدث ہیں جن پر ہندوستان کے بیشتر علمی حلقوں کا اعتماد ہے ، ان کے ا س ارشادسے معلوم ہوا کہ صاحب سکینہ کو بہت سے بلند احوال حاصل ہوتے ہیں ۔ ان احوال کی قدرے تفصیل آگے آرہی ہے ، لیکن ہمارے زمانے میں دینی