تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ساتھ پیش آنا اور خلقت کی ایذاؤں کا برداشت کرنا (۳) نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ معاملہ کرنا ، غیظ و غضب سے بچنا(۴) ہمدردی اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا، مخلوق پر فرط شفقت کی وجہ سے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کے حقوق کو اپنے نفسانی حظوظ پر مقدم رکھا جائے ،(۵) سخاوت کرنا (۶) در گزر اور خطا کا معاف کرنا (۷) خندہ روئی اور بشاشت سے پیش آنا (۸) سہولت اور نرم پہلو رکھنا۔ (۹) تصنع اور تکلف سے پرہیز کرنا۔ (۱۰) خرچ بلا تنگی اور اسراف کے کرنا (۱۱)خدا پر بھروسہ رکھنا (۱۲) تھوڑی دنیا پر قناعت کرنا (۱۳) پرہیزگاری اپنانا (۱۴) جنگ و جدل اور عتاب نہ کرنا ، مگر کسی حق کی بنیاد پر (۱۵) بغض و کینہ و حسد نہ رکھنا (۱۶) مال و جاہ کا خواہش مند نہ ہونا (۱۷) وعدہ کی پابندی کرنا (۱۸) بردباری (۱۹) دور اندیشی (۲۰) بھائیوں کے ساتھ موافقت و محبت رکھنا اور اغیار سے علیحدہ رہنا (۲۱) محسن کی شکر گزاری اور (۲۲)جاہ کا مسلمانوں کے فائدے کیلئے استعمال کرنا۔ صوفی اخلاق میں اپنا ظاہر وباطن مہذب بناتا ہے ، اور تصوف ساراادب ہی کا نام ہے ۔ (کس ادب کا ؟) بارگاہ احدیت کا ادب اور حق تعالیٰ کے جلال و ہیبت کی وجہ سے از روئے حیا ، ما سوی اللہ سے اعراض کرنا ، حدیث نفس ( یعنی ہمہ وقت نفس کی گفتگو میں مشغول رہنا) بد ترین معصیت اور ظلمت کا سبب ہے ۔ (تذکرۃ الرشید ج:۲ ص: ۱۱) غور کرلیجئے ، ان مقاصد میں کوئی بات اہل ایمان کیلئے نہ مبہم ہے اور نہ اجنبی کہ اس کی تشریح و تعریف ضروری ہو ، البتہ قوت یقین جس کومولانا نے علم اعلیٰ سے تعبیر کیا ہے ۔ اس کی قدرے وضاحت کردینی مناسب ہے ۔قوت یقین :۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات از قبیل امور غیب ہیں ، اور انسان کے ادراک وحواس کی قوت عالم شہود سے متعلق ہے ، پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس کو حق تعالیٰ کی ذات و صفات کے اوپر ایسا یقین حاصل ہو اور اس کے ساتھ ایسا قوی تعلق و ارتباط پیدا ہوکہ اس کی وجہ سے مشاہدات کا یقین اور دنیا کی چیزوں کا تعلق مضمحل اور ماند پڑجائے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شخص خوب جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ا نسان کے اس مادی