تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
کا فیضان بھی دور و نزدیک جاری ہے۔ یہ داستان بہت لمبی ہے، اس کا کچھ حصہ بھی بیان کرنا ہوتو ضخیم ضخیم کئی جلدیں ہوجائیں گی، بھلا یہ مقالہ کہاں اس کی گنجائش رکھتا ہے۔ قلم بشکن، سیاہی ریز، کاغذ سوزدم در کش حسن ایں قصۂ عشق است در دفتر نمی گنجد ۱؎ حضرت شیخ کے خلفاء و مجازین کا تعارف دو ضخیم جلدوں میں مولانا محمد یوسف متالا نے جمع کیا ہے، کتاب کا نام ہے ’’حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نوراﷲ مرقدہٗ اور ان کے خلفاء کرام‘‘ یہ تین جلدیں ہیں ۔ پہلی جلد میں حضرت شیخ کا تذکرہ ہے، اور باقی دو جلدوں میں خلفاء کا تعارف ہے۔ ٭٭٭٭٭ضمیمہ(۱) مقالہ میں حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب سہارنپوری علیہ الرحمہ کا تذکرہ آیا ہے، انھیں کے ہم نام شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری نوراﷲ مرقدہٗ تھے، جو اول الذکر سے بیعت اور ان کے خلیفہ تھے، انکے خلفاء میں حضرت مولانا امیر باز خاں صاحب، حضرت مولانا عبد اﷲ شاہ کرنالی اور حضرت مولانا شاہ ابو الحسن صاحب سہارنپوری بھی ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مختصر تعارف کرادیا جائے، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی صاحب ندوی علیہ الرحمہ نے سوانح شاہ عبد القادر رائپوری میں ان کا تذکرہ کیا ہے، اسے نقل کیا جاتا ہے، لکھتے ہیں ۔ حضرت میاں صاحب سرساوہ ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے، اگر (یہ خاندانی) روایت صحیح ہے کہ ۸۹؍ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تو ولادت ۱۲۱۴ھ میں ہوئی ہوگی، حضرت (شاہ عبد القادر صاحب) رحمۃ اﷲ علیہ حضرت میاں صاحب کے نہایت دل آویز اور بڑے رفیع حالات سنایا کرتے تھے، ان کی مدد سے ان کا مختصر تذکرہ اور تعارف مرتب ہوسکتا ہے۔ فرماتے تھے کہ میاں صاحب حضرت حاجی اخوند صاحب سوات کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور بیعت کی درخواست کی، حاجی صاحب نے بیعت فرمالیا، اور شرط کی کہ انگریزوں کی نوکری نہیں کروگے، ورنہ بیعت شکست ہوجائے گی، وہ بیعت کرکے چلے