تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
حاصل کیا جاتا ہے اور احوال عطیہ ٔ خداوندی ہیں ) پس خلاصہ یہ ہوا کہ طریق میں تین امر مبحوث عنہ ہیں : (۱) علوم جن سے مقصود میں بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔ (۲) اور اعمال جو کہ مقصود ہیں اور انہیں کا اہتمام ضروری ہے ۔ (۳) اور احوال جوکہ مقصود نہیں ہیں ، گو محمود ہیں ، ان کے درپے ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔ ( بصائر حکیم الامت بحوالہ تربیت السالک ،ص: ۷۰۳)مقاصد تصوف :۔ تصوف کے مقاصد جن کا ذکر اوپر ہوا اور جنہیں اصطلاح میں مقامات کہا جاتا ہے ، ان کے مطلوب و مامور ہونے میں کسی مسلمان کو کلام نہیں ہوسکتا ۔ حضرت تھانوی ؒ نے اس کے دو شعبے بیان فرمائے ہیں ۔ ایک شعبہ وہ ہے جو اعضائے ظاہرہ سے متعلق ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ اور دوسری طاعات ہیں ، ان میں جو کچھ فرض ہے ، وہ تو ہر مسلمان کی ذمہ د اری ہے ۔ البتہ ان میں جو کچھ نوافل ہیں ، ان کی تکثیر اور ان کا اہتمام مقربین اور اصحاب سلوک کا وظیفہ ہے ۔ لیکن تصوف میں زیادہ اہتمام ان اعمال کا ہوتا ہے ۔ جن کا تعلق قلب سے ہے ۔ جن کے حاصل ہونے کے بعد اول الذکر اعمال میں جان پڑتی ہے ۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ : الا ان فی الجسد لمضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب ۔ سنو! بدن میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو سارا بدن درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑتاہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے ۔ سنو! وہ دل ہے۔ نماز ہر شخص پڑھتاہے ،لیکن اگر اس میں قلب کا عمل یعنی خشوع شامل نہیں ہے تو نماز عبادت کا ظاہری ڈھانچہ بن کر رہ جائے گی ۔ اس نماز سے فریضۂ الٰہی از روئے فقہ ظاہری تو اتر جائے گا مگر اس پر اس فلاح کی ضمانت نہیں ہے ، جس کی طرف اذان میں حی علی الفلاح کہہ کر دعوت دی جاتی ہے ۔ کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے :