تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
عبداللہ کوتحریر فرماتے ہیں کہ : نصیحتے کہ بہ فرزند اعزی و بسائر احبہ نمودہ می آید اتباع سنت سنیہ است علی صاحبہا الصلوٰہ والسلام والتحیۃ واجتناب از بدعت نا مرضیہ ،سعادت مند کسے است کہ دریں غربت احیائے سنتے از سنن متروکہ نماید واماتت بدعت از بدع مستعملہ فرماید ۔ ایں آں وقت است کہ ہزار سال از بعثت خیر البشر علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام گزشتہ است، علامات قیامت پر تو انداختہ است وسنت بواسطۂ بعد عہد نبوت مستور شدہ است و بدعت بعلت افشاء کذب جلوہ گر گشتہ شاہبازے باید کہ نصرت فرماید و ہزیمت بدعت نماید ۔ بہمگی ہمت و تمامی نہمت متوجہ آں باید کہ ترویج سنتے از سنن نمودہ آید و رفع بدعتے از بدع کردہ شود۔ (مکتوب : ۲۳ دفتر دوم ص: ۵۸)ترجمہ : نصیحت جو فرزند عزیز اور تمام دوستوں کو بطور خاص کی جاتی ہے ، وہ سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوٰہ والسلام کی تابعداری اور بدعات ناپسندیدہ سے کلی اجتناب کی ہے ، وہی شخص سعادت مند ہے جو اسلام کی غربت کے اس دور میں متروکہ سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کرے، اور جاری بدعات میں سے کسی بدعت کو ختم کرے ۔ یہ وہ وقت ہے کہ حضرت خیر البشر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر ایک ہزار برس گذر چکے ہیں ۔ قیامت اپنا سایہ ڈال رہی ہے ، عہد نبوت سے بعد کی وجہ سے سنتیں پوشیدہ ہو رہی ہیں ، اور کذب کی شیوع کی وجہ سے بدعات جلوہ گر ہو رہی ہیں ، کوئی شاہباز چاہئے جو سنت کی نصرت کرے ۔ اور بدعات کو شکست دے ، پوری توجہ اور اہتمام سے اس پر متوجہ ہونا چاہئے کہ کسی سنت کی ترویج ہو اور کسی بدعت کا خاتمہ ہو۔خلاصہ :۔ اب تک کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرات صوفیۂ کاملین اور مشائخ محققین کے نزدیک تصوف کا حاصل یہ ہے کہ جناب نبی اکرم ا کا اتباع کامل ،ا س کے واسطے سے حق تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو،یہی تصوف کی روح ہے ، اور اس کی غایت ہے ، اگر یہ بات کسی کو حاصل ہوتو اس نے تصوف کی روح پالی ، خواہ وہ اس کے نام سے آشنا نہ ہو ،اور جو اس سے محروم رہا ۔ اس کو تصوف سے کوئی تعلق نہیں خواہ اسکو تصوف کی تمام اصطلاحیں از بر ہوں ، خواہ وہ تمام رسوم تصوف کو ادا کرتا ہو، اور خواہ وہ خود کو زمرۂ صوفیہ میں شمار کرتا ہو۔