تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
مولانا عبد اﷲ شاہ کرنالی تعلیمات رحیمی میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت پیرو مرشد (حضرت میاں صاحب سہارنپوری ) بدرجۂ غایت متبع سنت اور محترز از بدعت تھے، کسی عرس اور محفل رقص و سرور و شعر خوانی میں شریک نہ ہوتے تھے، اور اپنے خادمان کو اتباع شریعت کا تقید فرماتے تھے اور بدعات سے منع فرماتے تھے۔ ۲۱؍ ربیع الاول ۱۳۰۳ھ روز دو شنبہ وقت شب میاں صاحب کی وفات ہوئی (سوانح حضرت مولانا عبد القادر رائپوری ۳۲۰)ضمیمہ(۲) حضرت میاں عبد الرحیم سہارنپوری قدس سرہٗ کے مربی اور شیخ صوبہ سرحد کے علاقہ سوات وغیرہ کے مشہور مجاہد حریت اور شیخ طریقت حضرت اخوند حاجی عبد الغفور صاحب سواتی قدس سرہٗ عرف سیدو بابا ہیں ، حضرت میاں صاحب ان کے اجل خلفا میں ہیں ، حضرت اخوند صاحب قدس سرہٗ نے اس علاقہ میں انگریز سامراج کے خلاف جہاد آزادی کی قیادت فرمائی تھی، اور پھر آپ ہی کی کوششوں سے علاقہ سوات دبُنْیَر میں قبائل کی ایک آزاد حکومت قائم ہوئی تھی، آپ کی خانقاہ مجاہدانہ خصوصیات کی حامل تھی، آپ کے ایک خلیفہ قاضی سلطان محمود صاحب جو کہ ایک طویل سفر کرکے وہاں پہونچے، سید و شریف کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں ۔ جہاد کی ہر طرف تیاریاں ہورہی تھیں ، لشکر جمع ہورہا تھا، روپئے اور ہتھیار تقسیم ہورہے تھے، حضرت اخوند صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی مسجد میں اسلحہ سازی کے اٹھارہ انیس کارخانے قائم تھے، اور ہتھیار بن رہے تھے، آپ اتنے مصروف تھے کہ قدم بوسی دشوار تھی۔ آپ میں جذبۂ جہاد کا اس قدر غلبہ تھا کہ جنگ امبیلہ ۱۸۶۳ء مطابق ۱۲۸۲ھ میں آپ نے انگریزی فوج کے ایک سپہ سالار جنرل جمیرلین سابق وزیر اعظم برطانیہ کے مقابلہ پر جو کار ہائے نمایاں سر انجام دئے وہ آزادی کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔