تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
اصطلاحات اور علوم دینی سے اس قدر بُعد ہوگیا ہے کہ اکثر اصحاب کیلئے لفظ ’’ سکینہ‘‘ نامانوس ہوگا۔ اور بعض سطح بینوں اور سرسری مطالعہ والوں نے اس باب میں بڑا مغالطہ پیدا کر رکھا ہے کہ جہاں کوئی لفظ انکی عقل و فہم سے بالاتر اہل علم کی کتابوں میں آیا ،تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے قصور علم اور کوتاہی ٔنظر کا اعتراف کریں ۔ ان الفاظ کو ہی بے معنی اور بے اثر بنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں ، اس طرح آہستہ آہستہ وہ تمام الفاظ واصطلاحات جو آج سے ایک صدی پیشتر نہ صرف یہ کہ مانوس تھے ، بلکہ ناخواندہ حتی کہ غیر مسلموں تک میں متعارف تھے ۔ آج پڑھے لکھے لوگ بھی ان سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں ۔یہاں ہم چاہتے ہیں کہ احوال کی قدرے تفصیل بیان کرنے سے پہلے لفظ سکینہ کی تشریح کردیں ، اور یہ تشریح بھی ہم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒہی سے مستعار لیں گے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ : ’’تمام مشائخ کے طریقوں کا مقصد و منتہیٰ ایک خاص نفسی کیفیت کا حاصل کرنا ہے ۔ جس کا نام ان کی اصطلاح میں ’’ نسبت ‘‘ ہے ۔ کیونکہ یہ ہیئت نفسی در حقیقت انسان کا حق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط و ارتباط ہے ۔ اسی کانام سکینہ بھی ہے ۔ اور اس کو نور بھی کہتے ہیں ،ا ورا س کی حقیقت یہ ہے کہ فطرت انسانی میں یعنی اس کے نفس ناطقہ میں ایک ایسی کیفیت سرایت کر جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے ملائکہ کے ساتھ مناسبت پیدا ہوجاتی ہے اور عالم بالا کے مشاہدہ کا ملکہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس عبارت کی تشریح میں مشہور بزرگ عالم اور محقق شیخ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں : ’’ تفصیل اس کی یہ ہے کہ انسان جب طاعات ، طہارات اور اذکار وغیرہ پر مداومت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے نفس میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے اس کو ہرکام اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کرنے کا ایک ملکۂ راسخہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ اسی ملکہ کا نام نسبت، سکینہ اور نور ہے ۔ اور حصول نسبت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ کو ادھر توجہ تام ہوگئی ، اور اس کو حق تعالیٰ سے تعلق ہوگیا ورنہ حق تعالیٰ کو تو بندہ سے نسبت