تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
اورجب یہ درخت اکھڑ جاتا ہے تو آدمی کو احکام الٰہی کی پابندی میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی، بلکہ اس میں شوق و ذوق کا اضافہ ہوکر حلاوت ولذت کی ایک جدید کیفیت شامل ہوجاتی ہے ،جس کی وجہ سے پوری زندگی پر لطف اور کیف آفریں ہوجاتی ہے ۔ گویا دین کی تکمیل کا مدار اصلاح نفس پر دو طریقوں سے ہے ، ایک تو اس طرح کہ وہ خود شریعت کا ایک جز ہے،وہ نہ ہوتو اس میں ایک جز کی کمی رہ جاتی ہے ۔ دوسرے اس طرح کہ باقی اجزاء کی کما حقہ تکمیل بھی اسی جز کے واسطے سے ہے ، اس کے نہ ہونے سے ہرجزو میں کمی و اضمحلال کو راہ مل جاتی ہے ۔تصوف کے اجزاء :۔ تصوف کوئی علمی اور تحقیقاتی فن نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک عملی اور تمرینی شعبہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخ صوفیہ ، مریدین کے قیل و قال کو پسند نہیں کرتے ، فرماتے ہیں کہ کام کرتے رہو ، مقصود کام کرنا ہے ، کلام کرنا نہیں ہے ، صوفیہ کے مشہور شارح اور ترجمان خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب نے فرمایا ہے کہ : کامیابی تو کام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی ذکر کے التزام سے ہوگی فکر کے اہتمام سے ہوگی لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ عمل سے پہلے اس کا بقدر ضرورت علم ہو، تاکہ اعمال میں غلطی نہ ہو اس لحاظ سے ، اوردوسرے فنون کی طرح تصوف کے بھی کچھ مبادی و مقدمات ، کچھ مقاصد اور کچھ ثمرات و فوائد ہیں ۔ ان میں عمل کے لحاظ سے اصل چیز تومقاصد ہیں ، لیکن ان کے حصول کیلئے کچھ ابتدائی تمہیدات اور بنیادی مقدمات ہوتے ہیں ، جن کو بروئے کار لائے بغیر مقصد کا حصول نہیں ہوتا، پھر مقاصد کو عمل میں لانے کے بعد ان کے کچھ ثمرات و فوائد حاصل ہوتے ہیں ، ان ثمرات میں سے بعض تو مطلوب بھی ہوتے ہیں ، اور محمود بھی ، اور بعض صرف محمود ہوتے ہیں ، ان کا حصول مطلوب نہیں ہوتا۔ اس کی قدرے تفصیل حکیم الامت حضرت تھانوی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے : ’’ ہر مطلوب میں کچھ مبادی ہوتے ہیں ، کچھ مقاصد ، کچھ زوائد و توابع ۔اصل