تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
دخل ہے ، اتنا کسی اور چیز کو دخل نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسا بدیہی اور فطری مسئلہ ہے جس پر کسی دو شخص کی رائے مختلف نہ ہوگی ۔ قرآن سے ، حدیث سے ، اقوال علماء سے حتی کہ عام انسانی افراد سے یہ بات ا س قدر محقق ہے کہ اس کیلئے کسی طرح کا ثبوت پیش کرنا تحصیل حاصل اور طول لاطائل ہے ۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی ساری فضیلت و کمال کا راز اسی ایک بات میں ہے کہ ان کو جناب نبی کریم ا کی صحبت و معیت ایمان و عقیدت کے ساتھ حاصل ہوئی تھی ، اگر کسی کو یہ صحبت حاصل نہیں ہے تو وہ ایمان و عمل کے خواہ کتنے اونچے درجے پر فائز ہو باتفاق امت اسے کسی صحابی کے مقابل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا دستور یہی ہے کہ جس کسی کو کوئی کمال حاصل ہوتا ہے ، وہ کسی صاحب کمال ہی کی صحبت میں حاصل ہوتا ہے ۔ حضرات صوفیہ نے اس اصول کے پیش نظر طریق کا مدار صحبت پر رکھا ہے ۔ لیکن یہ بھی معلوم ومسلّم ہے کہ نری صحبت بلا تعلق ومحبت اور بغیر اعتقاد وانقیاد کے مفید ومؤثر نہیں ہوتی ، اسلئے یہ حضرات فرماتے ہیں کہ جس شخص کو کوئی دینی کمال اور تقویٰ کا حسن وجمال حاصل کرنا ہو، وہ کسی صاحب کمال اور متقی و خوش خصال کو تلاش کرے۔ اس سے عقیدت ومناسبت ہو تو اس کی صحبت میں رہے ، اس سے علم وعمل سیکھے ، اس طریقے سے اسے کمال حاصل ہوتا چلا جائے گا۔ تجربہ یہی ہے کہ جو کچھ کسی کو حاصل ہوا ہے، اسی طریقے سے حاصل ہوا ہے ۔ دنیاوی علوم و فنون اور اعمال واشغال میں بھی یہی دستور کارفرما ہے ، اگر کسی کو تجارت کرنی ہے تو تاجروں کی صحبت میں رہ کر سیکھے ۔صحبت کی تاثیر :۔ مشہور ہے کہ کسی جوہری کا انتقال ہونے لگا ۔ اس کا بچہ ابھی چھوٹا تھا ، اس نے ایک صندوق میں جواہرات اور انہیں کے ہم شکل اور ہم رنگ پتھر کے ٹکڑے رکھ دئیے ، اور ایک رقعہ پر وصیت تحریر کی کہ اس صندوق میں جواہرات ہیں اور انہیں کے ہم رنگ پارہائے سنگ رکھے ہوئے ہیں ۔ بڑے ہونے کے بعد تم اسے فلاں شخص کے پاس جو میرا دوست اور جوہری ہے ، لے جاکر اسے دکھانا ، وہ شناخت کرکے تمہیں اصل