تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
کا تعلق ذرا مشکل سے قائم ہوتا ہے ۔ اور اس دنیا کے ساتھ جلد رشتہ جڑ جاتا ہے ۔ اسی لئے بیشتر نفوس اپنی لذات و خواہشات میں منہمک ہوتے ہیں ۔ اب بجز اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ بجبر اسے شریعت کی لگام پہنائی جائے اگر وہ گناہ پر دوڑے تو اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی جائیں اس کے ملکات رذیلہ کو دور کیا جائے ۔ خصائل حمیدہ کا اسے خوگر بنایا جائے ۔ اور عبادت و طاعت کا ذوق اس کے اندر بیدار کیا جائے، یہی بنیاد ہے ریاضات اور مجاہدات کی ۔مجاہدے کی اقسام : مجاہدات کی حقیقت اجمالاً واضح کر دینے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صوفیہ کے نزدیک جو ضروری مجاہدات ہیں جن کے اختیار کئے بغیر حصول مقصود ممکن نہیں ، ان کا تذکرہ کسی قدر تفصیل سے کر دیا جائے ۔ اس سے انداز ہ ہوجائے گا کہ صوفیہ کس قدر فطرت شناس اورروح ایمان کے کس درجہ عارف اورواقف کار ہیں ۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ : ’’ مجاہدے کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک مجاہدہ جسمانی کہ نفس کو مشقت کا عادی بنایا جائے ۔ مثلاً تکثیر نوافل سے نماز کا عادی کرنا اورروزے کی کثرت سے کھانے کی حرص وغیرہ کو کم کرنا۔ اور ایک مجاہدہ مخالفت نفس ہے کہ جس وقت نفس معصیت کا تقاضا کرے اس وقت اس کے تقاضے کی مخالفت کرنا۔ اصل مقصود دوسرا مجاہدہ ہے اور یہ واجب ہے ۔ اور پہلا مجاہدہ بھی اسی کی تحصیل کیلئے کیا جاتا ہے ۔ کہ جب نفس مشقت برداشت کرنے کا عادی ہوجائے گا تو اس کو اپنے جذبات کے ضبط کرنے کی بھی عادت ہوگی ۔ لیکن اگر کسی کو بغیر مجاہدہ جسمانی کے نفس پر قدرت حاصل ہوجائے تو اس کو مجاہدہ جسمانیہ کی ضرورت نہیں مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔ اسی واسطے صوفیہ نے مجاہدہ