تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
جواز کی دلیل خندق کا واقعہ ہے ۔ یہ انتظام و تدبیر فارسیوں کا کوئی قومی یا مذہبی شعار نہ تھا۔ محض ایک تدبیر تھی ۔ اس لئے حضور اکرم انے اس کی اجازت دیدی تھی ۔ ( شریعت و طریقت ۔ ص: ۲۷۳) خوب یاد رکھئے کہ شاذو نادر جو اشغال جوگیوں سے لئے گئے ہیں ۔ وہ نہ تو بعینہٖ ان کے طریقے پر لئے گئے ہیں اور نہ ان پر مطلقاً عمل ہوتا ۔ ان میں مشائخ نے تصرف کرکے ان کی ہیئت تبدیل کر دی ہے ، مثلاً حبس دم کے جو طریقے جوگیوں میں مروج ہیں ۔ ان میں سے کوئی ایک طریقہ ہمارے یہاں معمول بہ نہیں ہے ،صرف معمولی درجے میں سانس روکنے کا عمل کیا جاتا ہے تاکہ کسی قدر گرمی پیدا ہوکر فاسد رطوبات جل جائیں اور اس سے یکسوئی پیدا ہو، پھر یہ کہ وہ بہت ناگزیر ضرورت کے وقت اختیار کئے جاتے ہیں ۔ اور ہمارے مشائخ دیوبند نے تقریباً اسے بالکل ہی حذف کردیا ہے ۔اشغال کی ضرورت :۔ اشغال کی ضرورت کب ہوتی ہے ، یہ بھی حضرت تھانوی کی زبانی سن لیجئے ۔ ’’ ذکرکے وقت اگر قلب میں جمعیت و خشوع معلوم ہو اور وہ روزانہ بڑھتی جائے اور وساوس و خطرات میں کمی ہونے لگے اور دل لگا کر ے تب تو اشغال کی حاجت نہیں ، اور ایک مدت تک ذکر کرنے سے قلب میں یکسوئی و خشوع نہ ہوتو مناسب ہے کہ کوئی شغل کرلیا کرے ۔ ( شریعت و طریقت ص: ۲۷۴)مراقبات:۔ مراقبہ بھی حضرات صوفیہ کی اصطلاحات میں سے ہے ۔ اس اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات کا یا اس سے متعلق کسی اور مضمون کا اکثر احوال میں یا کسی خاص محدود وقت میں دل سے پورے تدبر اور کامل غور و فکر کے ساتھ خیال جمانا۔ اور اس کا تصور بطور مواظبت کے رکھنا تا کہ اس تصور کے غلبہ سے اس کے مقتضا پر عمل ہونا آسان ہوجائے ۔ یہی عمل مراقبہ کہلاتا ہے ۔ مراقبہ کا فائدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ناقص اور ناتمام تصور جو کبھی ذہن میں حاضر ہوتا ہے ، اور بیشتر اوقات غائب رہتا ہے ۔ یہ تصورراسخ