تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ علماء مظاہر اور تصوف و سلوک تصوف کیا ہے؟یہ سوال رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی علیہ الرحمہ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی نوراﷲ مرقدہٗ سے کیا تھا۔ اور شیخ نے اس کا ایک نہایت مختصر اور جامع جواب دیا تھا۔ مختصر اتنا کہ چند سطروں میں لکھ لیجئے، اور جامع اتنا کہ اس میں تصوف و سلوک اور احسان و عرفان کی تمام وسعتیں سما گئی ہیں ۔ آپ اس داستان کو خود حضرت شیخ الحدیث صاحب کے سادہ اور بے تکلف الفاظ میں پڑھئے، شیخ نے اپنی املائی کتاب آپ بیتی میں اس سوال و جواب کو درج فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’ایک مرتبہ دس بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرے میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیرنے اوپر جاکر کہا کہ رئیس الاحرار آئے ہیں رائے پور جارہے ہیں ، صرف مصافحہ کرنا ہے، میں نے کہا جلدی بلادے، مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا کر کہا، رائے پور جارہا ہوں ، اور ایک سوال آپ سے کر کے جارہا ہوں پرسوں صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں ، واپسی میں جواب لوں گا، یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟ میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ صرف تصحیح نیت، اس کے سوا کچھ نہیں ، جس کی ابتدا انما الاعمال بالنیات سے ہوتی ہے اور انتہا ان تعبد اﷲ کانک تراہ ہے‘‘ دوسری ملاقات میں حضرت شیخ الحدیث رحمۃاﷲ علیہ نے مولانا مرحوم سے فرمایا: ’’ انما الاعمال بالنیات‘‘ سارے تصوف کی ابتدا ہے اور ’’ان تعبد اﷲ کانک تراہ‘‘ سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو ’’ نسبت ‘‘ کہتے ہیں ، اسی کو ’’ یاد