تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
عادۃ اللہ یونہی جاری ہے کہ کوئی کمال بدون استاذ کے حاصل نہیں ہوتا۔ تو جب اس راہ طریقت میں آنے کی توفیق ہو تو استاذ طریق کو ضرور تلاش کرنا چاہئے جس کے فیض تعلیم و برکت صحبت سے مقصود حقیقی تک پہونچے ۔ ؎ گر ہوائے ایں سفر داری دلا دامن رہبر بگیر و پس بیا بے رفیقے ہر کہ شد در راہ عشق عمر بگذشت و نشد آگاہ عشق اے دل! اگر اس سفر کی خواہش ہوتو رہبر کا دامن پکڑ کر پیچھے پیچھے آؤ، اس لئے کہ جو بھی عشق کی راہ میں بغیر رفیق کے چلا ۔ اس کی عمر گزر گئی اور وہ عشق سے آگاہ نہ ہوسکا۔ ( شریعت و طریقت ،ص:۶۲بحوالہ تعلیم الدین )شیخ کامل : بیعت و صحبت کی اہمیت و ضرورت ثابت ہوجانے کے بعد ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر سالک مطمئن ہوجائے ، اور اس کی صحبت و تعلیم سے تقویٰ کی راہ طے کرے ، ضرورت ہے کہ اس کے واسطے اعلیٰ درجہ کا دین دار ومتقی اور صالح و مصلح تلاش کیا جائے کیونکہ صحبت و بیعت کی تاثیر بیان کی جا چکی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے : عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ : المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل (ابوداؤد وترمذی ) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے طریقے پرہوتا ہے ، سو ذرا دیکھ بھال لینا چاہئے کہ کس کے ساتھ دوستی کرے۔ جب معمولی دوستی کے اندر یہ اثر ہوتا ہے توشیخ اور استاذ سے تو اعلیٰ درجہ کی محبت ہوتی ہے، اس کا کیا کچھ اثر ہوگا۔ چنانچہ مشاہد ہ ہے کہ جس کے ساتھ جس قدر محبت و عقیدت ہوتی ہے، اسی اعتبار سے اس کے ا عمال و اخلاق کا اثر جلد اور محکم طور پر سرایت کرتا ہے ۔ اگر خدا نخواستہ پیر کا حال بہتر نہیں ہوا تو اس کے حال کی خرابی مرید میں بھی آئے گی، اسلئے تلاش