تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
۱۲۹۳ھ میں مدرسہ کی سابقہ تعمیر گویا تکمیل پاچکی تھی، اس لئے شوال سن رواں میں مدرسہ محلہ قاضی سے منتقل ہوا، ۸؍ شوال کو انتقال مدرسہ کی تقریب پر اس جدید مکان میں جلسہ ہوا، جس میں حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے تین گھنٹہ مسلسل وعظ فرمایا، حضرت مولانا احمد علی صاحب (محدث) اب تک اپنے دولت کدے پر تدریس فرماتے تھے، اس سال سے مدرسہ ہی میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا (ج۱/۳۰) اس روداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد علی قدس سرہ نے مدرسہ کی نئی تعمیر میں تعلیم حاصل کی ،اس سال کی روداد میں ہے کہ : چونکہ حضرت مولانا احمد علی صاحب نے بھی امسال مدرسہ میں ہی قیام فرماکر تعلیمی و تدریسی سلسلہ شروع فرمادیا، اور حضرت کی شہرت نواح ہند میں جیسی ہونی چاہئے تھی وہ ظاہر ہے، اس لئے طلبۂ حدیث میں بہت اضافہ ہوا، اور پچیس طلبہ حدیث کی تکمیل فرماکر اطراف ہندمیں مصابیح ہدایت بنے۔ (ج۱/۳۱) ان طلبہ میں مولوی حافظ محمد علی کان پوری کا بھی نام ہے، اس سے مراد یہی حضرت مولانا سید محمد علی صاحب مونگیری ہیں ، جو اس وقت کانپوری تھے، بعد میں حضرت مولانا فضل رحمن صاحب گنج مرادآبادی کے حکم سے مونگیری ہوئے، ۱۳۴۶ھ میں انتقال ہوا۔(۵) کرنال صوبۂ پنجاب کے قوی النسبت صاحب جذب بزرگ حضرت مولانا عبد اﷲ شاہ صاحب، اصلاً جلال آباد ضلع مظفر نگر کے رہنے والے تھے، اپنے شیخ حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب سہانپوری کے حکم سے کرنال کو آباد فرمایا۔ حضرت مولانا عبد اﷲ صاحب نے ۱۲۹۲ھ میں جامعہ مظاہر علوم میں حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری کی خدمت میں حدیث کی کتابیں پڑھیں ۔ اس دور میں حضرت مولانا امیر باز خاں صاحب کے ہمراہ حضرت شاہ عبد الر حیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے، پھر ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئے، اور اجازت وخلافت سے نوازے گـے۔