تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ہوجائے ۔ اسی رسوخ میں مشائخ عوام سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ : الاحسان ان تعبد اﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھ رہاہے اور فرمایا: احفــظ اﷲ تجــــــد تجاھک اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھو اسے اپنے سامنے پاؤ گے دونوں حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا استحضاراس طرح رکھے گویا اسے اپنے سامنے پا رہا ہے ، اسے دیکھ رہاہے ۔ اور ایسا اسی وقت ہو سکتاہے جب اس کا گہرا تصور آدمی کو حاصل ہو ۔ اس کے بغیر استحضار ناممکن ہے ۔ اسی گہرے تصور اور کامل توجہ کو حاصل کرنے کیلئے مشائخ مختلف مراقبات تجویز کرتے ہیں ، کبھی کسی خاص صفت کا مراقبہ تلقین کرتے ہیں ، کبھی محض ذات کا مراقبہ ، حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا استحضار تام حاصل ہوجائے ۔ (ماخوذ ازشریعت و طریقت)مشارطہ اور محاسبہ :۔ مراقبہ سے تعلق رکھنے والی دو چیزیں اور ہیں ۔ ایک مراقبہ سے پہلے اور ایک مراقبہ کے بعد ، مراقبہ سے پہلے مشارطہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزانہ صبح اٹھ کر تھوڑی دیر تنہائی میں بیٹھ کراپنے نفس کو خوب فہمائش کرے کہ دیکھو فلاں فلاں کام کرنا ، اور فلاں فلاں نہ کرنا،ا س کے بعد دن بھرصبح کو دی ہوئی ہدایات کی نگرانی کرتے رہنا اور جب دن ختم ہو۔ پھر سوتے وقت صبح سے شام تک جو اعمال کئے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ لے، جو کام نیک ہوئے ہوں ان پر شکر الٰہی بجا لائے ،اور جو برے کام صادر ہوئے ہوں ، ان پرنفس کو ملامت اور زجر وتوبیخ کرے ۔ اگر صرف زجر وتوبیخ کافی نہ ہو توکچھ سزا تجویز کرے، اس کو عمل میں لائے اسی طریقۂ کار کو محاسبہ کہتے ہیں ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :