تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
تصوف ایک اصطلاحی لفظ :۔ تصوف کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ تصوف ایک شرعی مقصد …جس کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے دینی احکام کیلئے بمنزلہ روح کے قرار دیا ہے … کااصطلاحی عنوان ہے ، عنوان سے بدکنا ،اور اس کو ہدف اعتراض بنانا معقولیت سے بعید ہے ۔ بات یہ ہے کہ دور رسالت میں تمام علوم و فنون دینیہ اور تمام اعمال شرعیہ کا سر چشمہ جناب نبی کریم ا کی ذات مبارکہ تھی ۔ آپ سے حضرات صحابہ نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق کمالات علمیہ و عملیہ کی تحصیل کی ، اور مختلف علوم میں امتیاز پیدا کیا، لیکن اس وقت علوم کیلئے الگ الگ عنوانات اور ان کے حاملین کیلئے الگ الگ نام متعین نہ ہوئے تھے ۔ آپ کے تمام شاگردوں اور متوسلین کا ایک لقب تھا ، یعنی صحابہ ان کے بعد جو لوگ آئے وہ تابعین ہوئے ، پھر علوم میں امتیاز اور اس کیو اسطے سے ان کے متخصصین میں امتیاز پیدا ہونے لگا ، چنانچہ علم حدیث ، علم تفسیر ، علم فقہ ، علم ا لانساب ، پھر علم اسماء الرجال ، علم اصول ، علم کلام اور مختلف علوم الگ الگ عنوانات سے ظاہر ہونے لگے ۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام علوم سادہ اور ابتدائی شکل میں عہد نبوت میں موجود تھے ، مگر جوں جوں ان کی تفصیلات مرتب ہوتی گئیں ، ان کی تدوین ہوتی گئی ، ان کے الگ الگ نام متعین ہوتے گئے ۔ اور ان کے لحاظ سے ان کے ماہرین کے نام معروف ہوتے گئے ۔ تو کیا چونکہ عہد نبوت میں یا عہد صحابہ میں یہ نام ا ور یہ القاب نہ تھے ، اس لئے ان کو بدعت اور محدث قرار دے دیا جائے گا؟ اگرنہیں تو پھر اس تصوف ہی سے وحشت کیوں ہے ؟ ہاں یہ دیکھ لینا چاہئے اور بغور سمجھ لینا چاہئے کہ جس علم یا جس عمل کا یہ عنوان مقرر ہوا ہے ، اس کی اصل قرآن و سنت ، عہد نبوی اور صحابہ میں موجود ہے یا نہیں ؟ اگر دین کے اس معیار پر تصوف کا مصداق کھرا نہیں ثابت ہوتا تو بے شک یہ لائق رد اور قابل انکار ہے ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے ، اس کے مقاصد و اغراض کتاب و سنت سے ماخوذ اور اس کے وسائل و ذرائع حد جواز کے ا ندر ہیں توکوئی وجہ نہیں کہ ا س کا اس بنا پر انکار کر دیا جائے کہ کتاب و سنت میں اس نام کا پتہ نہیں ۔ اگر ایسا وطیرہ عام کر دیا جائے تو بہت سے علوم