تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
میں مطعون تر اور مظلوم تر جو شعبہ ہے وہ احسان و سلوک کا شعبہ ہے، جس کا اصطلاحی نام ’’تصوف ‘‘ ہے ۔ اور جس گروہ پر سب سے زیادہ مشق ستم کی جاتی ہے وہ صوفیہ کا گروہ ہے ۔ تصوف سے بڑھ کر کوئی بدعت نہیں اور صوفیہ سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں ، یہ لَے ادھر چند برسوں سے اتنی بڑھ گئی ہے کہ جن حلقوں میں تصوف کل تک سرمایہ ٔ افتخار اور وجہ سعادت تھا، جس کے حصول کے بغیرآدمی کی دینی شخصیت نا تمام اورادھوری سمجھی جاتی تھی ۔ آج انہیں حلقوں کے افراد اس کے نام اور نسبت سے شرمانے لگے ہیں ، کل تک جن بڑوں نے تصوف کے ذریعہ اپنی شناخت پیدا کی تھی ، آج انہیں کے چھوٹے اسے باعث ننگ سمجھنے لگے ہیں ، اولین سابقین کو تو چھوڑئیے قرو ن متاخرہ میں کون نہیں جانتا کہ کم از کم اسی بر صغیر ہندوپاک میں مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمدسرہندی اور ان کی اولاد واحفاد، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور ان کی اولاد ، نیز حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی اور ان کے نامور صاحبزادگان اور روحانی ومعنوی اخلاف یہ سب حضرات نہ صرف یہ کہ تصوف اور صوفیہ کے علم و عمل کے ذوق آشنا تھے بلکہ اس کے زبردست داعی اور وکیل بھی تھے ۔ ان کی زندگیوں سے تصوف نکال لیجئے تو ان کے کمالات کی روح فنا ہوجائے گی، پھر ان کے بعد علماء دیوبند کے اساطین مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی کی ساری زندگی تصوف ہی کے محور پر گردش کرتی رہی ، ان کے کمالا ت کا ہرمعقول شخص کو اعتراف ہے ۔ لیکن ستم ظریفی کی حد ہے کہ جن ذرائع سے یہ اکابر کمالات کو پہونچے اور جس کو انہوں نے ہمیشہ اپنے لئے باعث سعادت سمجھا اور جس سے ایک لمحہ کیلئے جدا ہونا پسند نہیں کیا اسی کو ان کے بہت سے اخلاف مٹانے پر تلے ہوئے ہیں ۔غلط فہمیاں :۔ تصوف کے سلسلے میں غلط فہمیوں کی لمبی زنجیر ہے، جس میں وہ لوگ بھی گرفتار ہیں جو اس کے منکر ہیں اور وہ لوگ بھی جو اس کے قائل و معترف ہیں ، جو لوگ تصوف کے قائل ہیں ، ان کی غلطی یہ ہے کہ بہت سے وہ امور جو اس فن میں مطلوب ومقصود نہیں ہیں انہیں لوگوں نے عین مامور ومقصود سمجھ رکھا ہے ۔ اور ان میں ایسا غلو کئے