تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
ہوئی ،جب وہ رسم (بیعت) خلفاء میں نہ رہی تو صوفیہ نے اس مردہ سنت کو پھر جاری کیا۔ (شریعت و طریقت ص: ۵۸) ابتداء میں خلفاء و حکام عامۃ الناس سے بیعت لیا کرتے تھے ، یہ بیعت حکومت سے وفاداری اور تسلیم و انقیاد کی تھی ۔ اس دور میں اگر صوفیہ دست بدست بیعت طریقت لیتے تو صورۃً مشابہت کی وجہ سے خلفاء و حکام کو بدگمانی ہوتی ، اور خطرات کا اندیشہ ہوتا۔ اس لئے حضرات مشائخ نے یہ طریقہ موقوف کر دیا کیونکہ یہ مقصود نہیں ہے ، صرف صحبت پر اکتفا کیا ، پھر بعض حضرات نے بطور علامت کے بجائے بیعت کے خرقہ دینا تجویز کیا ، جو اس بات کی نشانی ہوتی کہ ا س شخص کو فلاں بزرگ کی خدمت وصحبت حاصل ہے ۔ بعد میں بیعت کا دستور خلفاء نے ختم کردیا، تو مشائخ نے پھر وہی قدیم سنت تازہ کردی ۔ (یہ مضمون القول الجمیل مؤلفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی میں بھی مفصل بیان کیا گیا ہے ۔ )بیعت کی ضرورت :۔ یہ بات یقینی ہے کہ بیعت کی ضرورت اس درجہ عام نہیں ہے کہ ہر شخص کو اس کا پابند قرار دیا جائے ، بہت سی سلیم طبیعتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ خود بخود نیکی کی طرف مائل ہوتی ہیں ، اور مختلف اسباب و عوامل سے ان کے اندر تقویٰ و دیانت کا رجحان متعین ہوجاتا ہے، ایسے لوگ اگر بیعت نہ ہوں تو مضائقہ نہیں ،لیکن عام انسانی طبائع کو دیکھتے ہوئے اس کی ضرورت کا ا حساس ہوتا ہے ، امت کے حکیم حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں کہ : ’’نفس میں بعض خفیہ امراض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بدون تنبیہ شیخ محقق عارف کے سمجھ میں نہیں آتے ، اور اگر سمجھ میں آبھی جاتے ہیں تو ان کا علاج سمجھ میں نہیں آتا۔ اور جو معلوم ہوتا ہے تو نفس کی کشا کشی سے اس پر عمل مشکل ہوتا ہے ۔ ان ضرورتوں سے پیر کامل تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ ان باتوں کو سمجھ کر آگاہ کرتا ہے ۔ ان کا علاج و تدبیر بتاتا ہے ۔ کیونکہ خود اپنی حالت کا سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ اور شیخ کو بصیرت ہوتی ہے ۔ (شریعت و طریقت ص:۶۰ بحوالہ انفاس عیسیٰ و قصد السبیل، وعظ الباطن )