تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ریاضتیں تجویز کیں تو فوراً سوال قائم کر دیا جاتا ہے کہ یہ طریقہ کتاب و سنت میں کہاں ہے ، سلف صالح نے اس طریقہ پر کب عمل کیاہے ؟ یہ طریقہ تو جوگیوں سے لیا گیاہے ۔ یہود ونصاریٰ سے لیا گیاہے ؟ و غیرذلک من الخرافات (۱) کتاب و سنت کی ساری مشق کیلئے بس تصوف غریب ہی رہ گیا ہے ۔ باقی کہیں کتاب و سنت کی ضرورت نہیں ہے، اور یہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کو کتاب و سنت کے حروف و نقوش کے علاوہ کسی اور چیز سے مس نہیں جوحدیث لم یبق من القرآن الا رسمہ (قرآن کی صرف تحریر باقی رہے گی ) اور لم یبق من الدین الا إ سمہ (دین کا صرف نام باقی رہ جائے گا) کے مصداق ہیں ،جن کی ز ندگیوں میں ، ان کے مکان میں ، ان کے لباس میں ، ان کی ا ولاد میں ، حتی کہ ان کے قلوب میں یہودیت اور نصرانیت بھری پڑی ہوئی ہے ۔ اور کتاب وسنت کا دور تک پتہ نہیں چلتا۔وسائل و مقاصد کا فرق :۔ یہ لوگ تصوف کو کتاب و سنت کے معیار پر پرکھتے وقت بھول جاتے ہیں …حالانکہ دوسری جگہوں پر یہ بات انہیں خوب یاد ہوتی ہے … کہ شریعت نے ان چیزوں کو جوبطور خود مقصود اور مطلوب ہیں متعین اور متشکل کر دیا ہے ،لیکن ان مقاصد کے حصول کیلئے ان کے ذرائع ووسائل میں وسعت کا راستہ اختیار کیا ہے ، بعض مواقع پر تو شریعت نے مقصد کے ساتھ حصول مقصد کا بھی طریقہ متعین کر دیا ہے ۔ اس میں تو تغیر وتبدل ممکن نہیں ، جیسے طہارت کیلئے پانی یا بوقت ضرورت مٹی کا استعمال ، یا نمازکے اعلان کیلئے اذان پکارنا ، کہ یہ ذرائع ہیں لیکن چونکہ حصول مقصود کیلئے شریعت نے انہیں ذرائع کو متعین کر دیا ہے ۔ اس لئے وضو کیلئے آدمی بجائے پانی کے کوئی اور سیال چیز استعمال کرے تو اس سے طہارت حاصل نہ ہوگی ۔ اسی طرح نماز کی اطلاع عام کیلئے بجائے ------------------------------ (۱) بہت عرصہ سے شور مچایا جاتا ہے کہ تصوف ہندوؤں کے جوگ کا مثنیٰ ہے ۔ اور صوفیوں نے جوگیوں سے اعمال و اشغال حاصل کئے ہیں ۔ پروپیگنڈہ خواہ کتنا ہی جھوٹا ہو، اس میں بڑی طاقت ہے ۔ اچھے اچھے ذہن و دماغ اس شوروغوغا سے ماؤف اور بہتیرے کان اس چیخ و پکار سے بہرے ہوگئے ہیں ، لیکن اس میں حقیقت کتنی ہے اس کا اندازہ کسی قدر خود اسی مضمون کے ذریعے ہوجائے گا ۔ اللہ ہمارے ناقدین کو فہم سلیم دے ۔