تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
حکیم الامت حضرت تھانویؒ تحریرفرماتے ہیں : ’’ اشغال کا مقصود اصلی یہ ہے کہ قلب کا انتشار جو بوجہ تشویش افکار کے ہے دفع ہوکر جمعیت خاطر اور خیال کی یکسوئی حاصل ہو، تاکہ اس کے خوگر ہونے سے توجہ تام الی اللہ جو کہ مبتدی کو بوجہ غیب ہونے کے مدرک کے ، اور مزاحم ہونے افکار مختلفہ اورحیات حاضرہ کے متعذر ہے (۱) سہل ہوجائے، اشغال مختلفہ اسی کے حیل (تدبیریں ) اور طرق ہیں ، نماز میں سُترہ کا حکم اس عمل کا ماخذ ہوسکتاہے، کیونکہ بتصریح علماء اسرار مقصود سترہ سے بھی جمع خاطر اور ربط خیال و نفی انتشار ہے، جیسا کہ ابن ہمام میں شرح ہدایہ میں لکھا ہے ، اور سترہ اس کی تدبیر ہے۔ (شریعت و طریقت ص: ۲۷۳ بحوالہ التکشف) دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’غرض جتنے اشغال ہیں وہ جمع خاطر ہی کیلئے ہیں ۔ مقصود بالذات نہیں ہیں ۔ اورا س میں مشائخ نے یہاں تک وسعت کی ہے کہ جوگیوں تک سے بعض اشغال لئے ہیں ۔ مثلاً حبس دم جو جوگیوں کا شغل ہے ۔ مگر چونکہ ان کا مذہبی شعار نہیں ہے ۔ اور خطرات دفع کرنے کیلئے نافع ہے ۔ اس لئے اس کو اپنے ہاں لے لیا ہے ، اور اس میں کچھ حرج نہیں ہے اور اس میں تشبہ ممنوع نہیں ہے ، کیونکہ جو چیزکسی فرقہ کا نہ مذہبی شعار ہو اور نہ قومی ، محض تدبیر کے درجے میں ہو، اس کو تدبیر ہی کی حیثیت سے کسی نفع کیلئے اختیار کرنے میں کوئی محذور شرعی نہیں ہے ۔ چونکہ حبس دم بھی دفع خواطر کیلئے محض ایک طبعی تدبیر ہے ۔ اس لئے اس کا استعمال جائز ہے ۔ کیونکہ یہ اخذ تدبیر میں ہے نہ کہ کسی مذہبی یا قومی شعار میں ، اور اس کے ------------------------------ (۱) مطلب یہ ہے کہ خدا کی ذات چونکہ غیب ہے اور انسان مشاہدات کا خوگر ہے ۔ پھر یہ کہ قلب انسانی پر ہر وقت مختلف قسم کے ا فکار کی یورش رہتی ہے ۔ اس لئے سالک مبتدی کو اللہ کی طرف توجہ تام نہیں ہوتی، اس کو ہر شخص محسوس کرتا ہے ۔ اور بہت سے لوگ اس کے دفعیہ کے تدابیر پوچھتے رہتے ہیں ۔ لیکن جب اس کی تدبیر بتائی جاتی ہے تو سطحی علم رکھنے والے اسے بدعت کہہ کہہ کر بدکتے ہیں اور محروم رہتے ہیں ۔ فویل لہم ۔