تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
سے نہیں رٹے گا کلمات قرآنی اس کی لوح دل پر نقش نہ ہوں گے ، وہ کبھی پوری آیت دہراتا ہے ،کبھی ایک ہی لفظ کا تکرار کرتا چلا جاتا ہے کیا اسکو بدعت کہا جائے گا۔ حضرات صوفیہ اللہ کے نام کو مختلف طریقوں سے رٹاتے ہیں ۔ یہ طریقے مقصود نہیں ہیں ، مقصود یہ ہے کہ وہ نام دل میں راسخ ہوجائے ۔ اسی کے لئے ضربیں لگواتے ہیں ۔ اسی کے لئے خلوت میں بٹھاتے ہیں ۔ اس کیلئے چلوں کا حکم دیتے ہیں ۔ خدا کے نام میں جو برکت اور حلاوت ہے ، اس کے اثر سے رذائل فنا ہوتے ہیں ۔ ایمان میں ترقی ہوتی ہے ۔ دل نرم ہوتا ہے ۔ ماسوی اللہ کی محبت دل سے زائل ہوجاتی ہے ۔ غرض اس ایک نام کے رٹنے سے روح اسلام ا ور روح ایمان حاصل ہوتی ہے ۔ اور یہی روح نہ حاصل ہوتو آدمی روح حیوانی رکھتے ہوئے مردہ ہے ۔ حدیث میں ہے : عن ابی موسیٰ قال قال رسول اللہ ﷺ مثل الذی یذکر اللہ والذی لا یذکر مثل الحی والمیت ( رواہ البخاری ومسلم ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ا س شخص کی مثال جو اللہ کو یاد کرتا ہے،اور جو نہیں یاد کرتا زندہ اور مردہ کی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ یہ تمرینات ہیں ۔ جن سے مقصود یہ ہے کہ آدمی کے رگ و ریشہ میں ذکر سرایت کرجائے اور کوئی لمحہ اس کا غفلت میں نہ گزرے ۔ چنانچہ صدیوں کا تجربہ یہی ہے کہ جس نے ان طریقوں کے مطابق کسی مرشد کامل کی رہنمائی میں ذکر اللہ کی مشق کی ، اس کا پورا وجود ذکر الٰہی بن گیا ،اس کا مشاہد ہ اس کثرت سے ہے کہ اس کی تکذیب ، تواتر کی تکذیب ہے ۔ اگر کسی کو تجربہ نہ ہواہو تو تجربہ کاروں کی بات کی تصدیق تو کرنی چاہئے ۔ ہاں اگر کوئی اس سے بہتر طریقہ ذکر الٰہی کے رسوخ کا لائے تو کیا مضائقہ ہے ۔ ع چشم ما روشن و دل ما شاد لیکن مصیبت تو یہی ہے کہ دوستوں نے تصوف پر توتیشہ چلا دیا ۔ مگر اس کا کوئی بدل نہ پیش کر سکے ،جو دولت ہاتھ میں تھی اسے ضائع کر دیا، اور دوسری کوئی دولت عطا نہیں کی،