تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
شعبے بھی سمٹتے جارہے ہیں ۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے ، جو ہماری گفتگو میں زیر بحث آئی ، اور یہ بھی ذکر آیا کہ جب کوئی عمل ختم ہوتا ہے ، تو اس کا علم بھی رُخصت ہوجاتا ہے ، تصوف در حقیقت ایک عملی چیز ہے ، مگر ہر عمل کے لئے علم لازم ہے ، تو اگر عمل رُخصت ہورہا ہے تو اندیشہ ہے کہ علم بھی جاتا رہے ، پھر اس سے وحشت بڑھ جائے تو دین وملت کا نقصان عظیم ہوگا ۔ مولانا قاسمی کو خیال ہوا کہ دارالعلوم کا ایک خصوصی شمارہ اسی موضوع پر شائع کیا جائے ، انھوں نے مجھے مکلف بنایا کہ ایک مفصل مضمون لکھوں ۔ میں نے باوجود نااہلی کے حامی بھرلی ۔ اسی سفر میں ، میں حیدرآباد گیا ۔ وہاں دس دن دارالعلوم حیدرآباد میں قیام رہا ، فرصت کے اوقات ملے اور میں نے ایک مفصل مقالہ ’’ تصوف ایک تعارف ‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔ مولانا نے دارالعلوم کا الاحسان نمبر سال بھر بعد شائع کیا ، اس میں یہ مقالہ چھپا ۔ اس کے بعد مختلف مواقع پر تصوف وسلوک اور اصحاب تصوف کے متعلق ، کبھی ضمناً ،کبھی مستقلاً کچھ کچھ لکھتا رہا ، کیونکہ زمانہ کی ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ غریب تصوف کا ذکر کیا ، پورے دین ہی کو مسخ وتحریف کا نشانہ کچھ لوگ بنائے ہوئے ہیں ، دنیاداری اور نفسانیت کے زور نے دین کی پابندیوں کو گراں بنادیا ہے ۔ پڑھے لکھے دیندار لوگ ، جو علماء کی صف میں شمار کئے جاتے ہیں ، وہ تصوف کو انہونی چیز سمجھ رہے ہیں ، لیکن مسلمانوں کے قلب میں نورِ ایمان کی وجہ سے جو گداز اور صلاحیت پائی جاتی ہے ، امید ہے کہ اس کو متوجہ کیاجائے ،تو اچھے نتائج ظاہر ہوں گے ۔ ویسے موجودہ حالات میں تصوف ایک پِتّہ ماری کاکام ہے ، اس میں خلوص سے لگنا بڑا حوصلہ چاہتا ہے ۔ اس جگہ ہم ماضی قریب کے ایک بلند پایہ عالم ومرشد اور صاحب نسبت شیخ مصلح