تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ہوکر نکلے اور دوسروں کو بھی سیراب کیا ، اور تمام ہندوستان میں پھیل کر دین کی بے لوث خدمت کی ، وہ انھیں حضرات سے بعنوان تصوف مربوط ومنسلک ہوئے ۔ اکثر لوگ حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی سے بیعت ہوئے ، بعض اکابر ان دونوں کے شیخ ومرشد حضرت حاجی امداد اﷲصاحب علیہ الرحمہ کے دامن فیض سے براہ راست وابستہ ہوئے ، جو مصالح کے تحت ہندوستان چھوڑکر بیت اﷲ شریف کے زیر سایہ مقیم تھے ، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جو تصوف وسلوک کا منکر ہو ، منکر تو خیر دور کی بات ہے ، کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس کو تصوف سے اجنبیت ہو ، اب بھی ان بزرگوں کا سلسلۂ فیض ان کے خلفاء ومتوسلین کے واسطے سے چل رہا ہے ، مگر اب ایک اور طرح کی ہوا چلنے لگی ہے ، خود دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ حضرات میں ایسے لوگ ملتے ہیں ، جو تصوف کو اجنبیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، اس سے بدکتے ہیں ، دوسروں کو بدکاتے ہیں ، یاکم ازکم تصوف کی مخالف تحریکوں ، غیر مقلدیت یا جماعت اسلامی سے متاثر ہیں ۔ ذکر آیا کہ یہ بات تشویشناک ہے ، یہ رُجحان تو دارالعلوم دیوبند اور اس کے بزرگوں کا اصل سرمایہ ہی کھودے گا ، ستم ظریفوں نے زبان اور قلم کا زور لگا کر یہ پروپیگنڈہ کررکھا ہے کہ تصوف شریعت کے بالمقابل کوئی دوسری تحریک ہے ، جو کہیں کہیں شریعت سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے ، اور اکثر جگہ شریعت سے جدا رہتی ہے ، لیکن یہ بات اتنی ہی غلط ہے ، جتنی یہ غلط ہے کہ علماء دیوبند معاذ اﷲ شانِ رسالت میں گستاخ ہیں ، جس کا پروپیگنڈہ بدعات وخرافیات کی تحریک عرصہ سے کررہی ہے ۔ تصوف ، اس کیفیت احسانی کے لئے مشق وتمرین کانام ہے ، جس کا تذکرہ اس مشہور حدیث میں ہے ، جو اہل علم کے درمیان حدیث جبرئیل کے نام سے معروف ہے ، یہ دین کے بنیادی مقصد کے حصول کی جدوجہد کانام ہے ، اس سے بدکنا دین سے بدکنا ہے ۔ دین کا یہ شعبہ جتنا اجنبی اور کمزور ہوتا جارہا ہے ، امت مسلمہ کے ایمان واحوال میں اتنا ہی ضعف واضمحلال آتا جارہا ہے ، ایمان واسلام کے ظاہری شعبے جس درجے میں موجود ہیں ۔ وہ ہیں ۔ لیکن ان میں روح کا فقدان بَیّن طور سے محسوس ہورہا ہے ، اور اسی کاا ثر ہے کہ ظاہری