تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
بھی استعداد ہے ۔ پھردونوں استعدادوں کی امداد کیلئے اللہ نے دو مخلوق برپاکیں ۔ آگ، پانی مٹی اور ہوا کے آمیزہ سے شہوات و خواہشات سے بھرا نفس تیار ہوا جو ہر وقت لذت کوشی وعیش پرستی کی جانب دوڑتا رہتاہے ۔ اس کی امداد کیلئے ابلیس اور اس کی ذریت ہے ۔ اور روح لطیف کی امداد کیلئے ملائکہ کا لشکر ہے ۔ ان دونوں میں توازن برقرار رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایک اور قوت ودیعت فرمائی جس کا نام’’ عقل‘‘ ہے ۔ اور عقل کی رہنمائی شریعت کے ذریعہ کی، عقل ان دونوں جذبات میں اعتدال و توازن برقرار رکھتی ہے ۔ اب غور کیجئے ، اگر نفس کا میلان شہوت ومعاصی کی جانب ہے تو اس کو ہوا دینے والا شیطان موجود ہے ۔ اور اگر روح کا انجذاب حق تعالیٰ کی بارگاہ قدس کی جانب ہے تو اس کی مددکیلئے جنود ملائکہ حاضر ہیں ۔ انسان اس کشمکش میں گرفتار ہوتا ہے تو عقل دونوں کے درمیان شریعت کی رہنمائی میں محاکمہ کرتی ہے ۔ پھر تو وہ اسے نہ بالکل شیطان بن جانے دیتی ہے اور نہ انسانوں کی صف سے نکل کر فرشتہ بننے کی اجازت دیتی ہے ۔ پس وہ انسان ہی رہ کر بارگاہ قدس میں ترقی کرتا رہتا ہے ۔ تاہم عام انسانوں کے حق میں نفس و شیطان کا پلہ بھاری ہے ، اس کی دو وجہیں ہیں ۔ اول یہ کہ انسان بچپن سے بلوغ تک ایسے عبوری دور میں ہوتاہے ۔ جبکہ عقل نا پختہ اور شعور نابالغ ہوتا ہے ۔ اس دور میں روح بھی خوابیدہ اور نفس کے تابع ہوتی ہے ، اس عبوری عہد میں نفس اپنی لذات و ضروریات پر ٹوٹا رہتاہے ۔ اس عہد میں نفس کافی طاقتور ہوچکا ہوتا ہے ، بلوغ کے وقت تک جبکہ اس کی عقل کامل ہوتی ہے ۔ نفس کا غلبہ ہوچکا ہوتا ہے ۔ اس عبوری مرحلہ سے گزرنے کے بعد وہ خدا کے احکام کا مخاطب ہوتا ہے ۔ یہ احکام نفس کی عین ضد ہوتے ہیں کیونکہ نفس تو بالکل آزاد رہنا چاہتا ہے ۔ اور احکام اسے پابند بناتے ہیں ۔ پس وہ بغاوت کرتا ہے اور شیطان اس کی مدد کرتا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایمانیات کا تعلق غیبی حقائق سے ہے ، اور اعمال صالحہ کی بنیادیں بھی غیبی امور پر ہیں ۔ اس کے برخلاف نفس اور طبیعت کے تقاضے اور خواہشا ت کا تعلق اس دنیائے حاضر کے ساتھ ہے ، اور آدمی کی نہاد عاجلانہ ہے ۔پس عالم غیب سے اس