تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
اذان کے ا ور کسی ذریعے سے کام لیا جائے تو وہ درست نہ ہوگا، لیکن زیادہ تر مواقع میں شریعت نے حصول مقصود کا کوئی خاص طریقۂ کار مقرر نہیں کیا ہے ۔ زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے طریقۂ کار کے اخذ واختیار کا معاملہ اصحاب معاملہ کے سپرد کر دیا ہے ۔ البتہ جواز و عدم جواز کی حدود متعین کر دی ہیں کہ ان سے خروج نہ ہو ، جواز کے دائرہ میں رہتے ہوئے مقاصد کے حصول کیلئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتاہے ۔ خواہ وہ خاص طریقہ عہد نبوت میں رہا ہو یا نہ رہا ہو، اس طریقے کوکتاب وسنت سے خارج نہیں قرار دیاجا سکتا۔ جس طریقے کی اباحت کتاب و سنت سے ثابت ہوگئی ۔ اس کو کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، مثلاً تحصیل علم ، مقاصد شرعیہ میں سے ایک عظیم مقصد ہے لیکن اس کیلئے شریعت نے کوئی خاص طریقہ منضبط نہیں کیا ہے ۔ آدمی کو ئی بھی جائز طریقہ اختیار کرے جس سے علم حاصل ہوجائے بس کافی ہے ۔ اس میں اس اعتراض کی گنجائش نہیں ہے کہ تم نے فلاں خاص طریق سے علم حاصل نہیں کیا ہے ۔ اس لئے تمہارا علم معتبر نہیں ، بس شرط یہ ہے کہ وہ صراط مستقیم سے منحرف نہ ہو۔ البتہ اس مسئلہ میں حدود کی رعایت ضروری ہے ۔ یعنی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے اسے ذریعے اور سبب ہی کے درجے میں رکھا جائے، اس کو مقصوداور بالذات عبادت نہ بنا لیا جائے ۔ ورنہ وہ بدعت قرار پائے گا ۔ ذرائع میں بطور خود کوئی تقدس اور عبادت کا پہلو نہیں ہے ۔ اگر ذرائع میں تقدس کا تصور ہے تو مقاصدکے ا عتبار سے ہے ،اگر کسی وقت ان سے مقصود کا حصول نہ ہو یا کسی وجہ سے ان میں ضرر کا پہلو غالب ہوجائے یا ان سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ تحصیل مقصود کیلئے از روئے تجربہ حاصل ہوجائے ،تو بے تامل اول کو چھوڑ کر دوسرے ذرائع اختیار کئے جائیں گے ۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ تصوف کا مقصود ،رضا خداوندی اور اخلاق عالیہ کا حصول، رذائل سے اجتناب ، دل میں یاد الٰہی کا رسوخ اور عبادات میں ان کی روح یعنی خشوع وخضوع کا حصول ہے ۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے شریعت نے کچھ قواعد اور کچھ دستور اور