تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
مقاصد ہوتے ہیں اور مبادی ان سے مقدم ہوتے ہیں ۔ مگر مقصود بالعرض ۔ (۱ ) اور زوائدان سے موخر مگرغیر مقصود ہوتے ہیں ،اسی طرح اس طریق میں بعض مبادی ہیں ، وہ چند علوم و مسائل ہیں ۔ جو موقوف علیہ ہیں ، بصیرت فی المقصود کیلئے ، اور بعض مقاصد ہیں کہ وہی مقصود بالتحصیل ہیں ، اور انہیں پر مدار ہے کامیابی اور ناکامی کا ، اور بعض زوائد ہیں کہ ان کا وجود نہ معیار کامیابی ہے اور نہ فقدان معیار ناکامی ۔ منجملہ مبادی کے امر اول مذکورہ بالا ہے ۔ ( یعنی چند علوم و مسائل ) جو غالباً اعظم المبادی اور اجمع المبادی ہیں اور مقاصد اعمال خاصہ ہیں ،جو کہ افعال اختیاریہ ہیں ، جن میں ایک حصہ اعمال صالحہ متعلق بجوارح ہے ۔ ( یعنی ایسے اعمال جن کا تعلق اعضاء ظاہرہ سے ہے ) جن کو سب جانتے ہیں ۔ نماز، روزہ ،حج ، زکوٰہ و دیگر طاعات واجبہ ومندوبہ۔ اور دوسرا حصہ اعمال صالحہ متعلق بقلب ونفس ہے ۔ مثل اخلاص وتواضع و حب حق و شکر وصبر ورضا و تفویض و توکل و خوف و رجا وامثالہا اور ان کے اضداد کاازالہ ، اور ان اعمال اختیاریہ کو مقامات کہتے ہیں ، اور یہی نصوص میں مامور بالتحصیل ہیں (یعنی قرآن و حدیث میں ان کے حاصل کرنے کاحکم ہے ) اور ان کے اضداد مامور بالازالہ بمعنی الکف والردع ہیں ( یعنی افعال مذکورہ کی ضد جو اعمال وافعال ہیں ، انہیں ترک کرنے کا حکم ہے ) اور ان اعمال کی غایت تعلق بحق ورضائے حق ہے کہ روح اعظم سلوک و تصوف کی یہی ہے، اور زوائد احوال خاصہ ہیں مثل ذوق و شوق ، قبض و بسط ، صحوو سکر ، غیبت ووجد اور استغراق واشباہما اور یہ امور غیر اختیاریہ ہیں ، اعمال مذکورہ پر اکثر ان کا ترتب ہوتاہے اور گاہ نہیں ہوتا۔ یہ احوال نہ مامور بہا ہیں اور نہ ان کے اضداد مامور بالازالہ ، اگر ترتب ہوجائے تو محمود ہے، اور اگر نہ ہو تو مقصود میں کچھ خلل نہیں ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ المقامات مکاسب والاحوال مواہب (مقامات کو ------------------------------ (۱)مقصود بالعرض کا مطلب یہ ہے کہ خود وہ چیز مطلوب نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ حصول مقصود کیلئے ضروری ہے ، اس لئے اس کابرتنا ضروری ہے ۔ مثلا کھانے کیلئے برتن ،چولہا بذات خود مطلوب نہیں ہے لیکن اس کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اس لئے وہ مقصود بالعرض ہے