تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
اپنی بہیمیت پر قائم رہے ، اور شہوات و خواہشات میں ملوث رہے تو ہوسکتاہے کہ دین کے باقی اجزاء وجود میں آتے رہیں ، مگر نفس کی تلویثات کی وجہ سے وہ مکدر ہوتے رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا ۔ جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب اور جس نے اس کو خراب کرلیا وہ ناکام ہوا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَویٰ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاویٰ (سورہ نازعات) جو اپنے رب کے سامنے کھڑاہونے سے ڈرا اور نفس کو اس کی خواہش سے روکا ، اس کا مستقر جنت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نفس ،انسانی وجودکا وہ جز ہے جس میں بگڑنے اور فاسد ہونے کی استعداد اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا اسے مطلقاً ’’ امارہ بالسوء ‘‘ برائی کا حکم دینے والا قرار دیاہے، لیکن یہی نفس تزکیہ اور طہارت قبول کرلینے کے بعد نفس مطمئنہ بن جاتا ہے، جس میں دخول جنت کی ندا سننے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے ۔ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی فرماتے ہیں : نفس آدمی بمنزلہ درختے ست کہ بمدد ہوائے شیطانی در ذات ایں کس بیخ می گیرد و محکم می شود ، اگر آدمی بتدریج و سکونت بزور عبادت و تقوی و بقوت محبت و عشق ہر روز آں درخت را بہ جنباند ہر آئینہ بیخ او سست شود و قابل قلع گردد۔ (نظام تعلیم و تربیت ج:۲ص: ۱۱۵، بحوالہ سیر الاولیاء ص: ۲۴۲) آدمی کا نفس ایک درخت کی طرح ہے ، شیطانی وساوس کی مدد سے اس میں بیج پڑتا ہے ۔ پھر وہ درخت بن کر مضبوط ہوجاتا ہے ۔ اگر انسان آہستہ آہستہ سنجیدگی سے عبادت و تقویٰ کے زور، اور محبت و عشق الٰہی کی قوت سے روزانہ اس درخت کو ہلاتا رہے گا تو یقیناً وہ سست پڑ جائے گا اور اکھاڑنے کے قابل ہوجائے گا۔