تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ ۔ ( سورہ ذاریات ) میں نے جن و انس کو محض اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے ۔ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں : یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْراً کَثِیْراً وَسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً ۔ ( سورہ احزاب ) اے ایمان والو! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو۔ اس نوع کے مضامین قرآن پاک میں جا بجا بیان ہوئے ہیں ۔ ان آیات پر غور کرنے سے حسب ذیل باتیں سامنے آتی ہیں ۔ (۱) انسان ا ور جنات کی تخلیق کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی بندگی ا ور عبادت ہے ۔ (۲) عبادت صرف اللہ کی ہونی چاہئے ، اس میں کسی غیر کی شرکت نہیں ہونی چاہئے حتی کہ حظ نفس کے بھی شائبہ سے پاک ہونی چاہئے ۔ (۳) عبادت ا ور بندگی کا یہ خلوص ساری زندگی میں جاری و ساری رہنا چاہئے ۔ عبادت کے جو متعینہ طریقے اور اوقات ہیں ، وہ تو ہیں ہی ، ان کے علاوہ زندگی کا ہر ہر لمحہ ہر حرکت و سکون اور ہر قول و فعل للہیت کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہونا چاہئے ۔ زندگی بھی اسی ذات بر حق کیلئے ، اور موت بھی اسی محبوب حقیقی کیلئے ۔ خواہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم خاکے شوم و بزیرپائے تو زیم مقصود من خستہ زکونین توئی از بہر تو میرم و از برائے تو زیم (۱) ------------------------------ (۱) حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء راوی ہیں کہ ان کے شیخ ،شیخ الاسلام خواجہ فرید الدین گنج شکر قدس سرہ ، ایک رات خاص حال ا ور کیفیت میں حجرۂ عبادت میں ٹہلتے تھے ، اور یہ رباعیض نہایت دردوسوز کے ساتھ پڑھتے تھے اور سجدے کرتے تھے کم و بیش ایک ہزار سجدے کئے تھے ۔ ان اللہ و الوں کے دلوں میں محبت کی وہ آگ لگی رہتی تھی کہ ان کے پورے وجود کو پھونک کر رکھ دیتی تھی ۔ ؎ میں رقص کرتا ہوں مست ہوکر مجھے وہ اپنا بنا رہے ہیں جلے گی انکے سوا ہر اک شے، وہ آگ دل میں لگا رہے ہیں آج ستم طریف ان کی نیتوں پر شبہ کرتے ہیں ۔ و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۔ (مولانا محمد احمد پرتاب گڈھی )