تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
ہندوستان کے باہر مہدی سوڈانی کی تحریک ،طرابلس میں سنوسیوں کا جہاد ،الجزائر میں دینی جدوجہد اور اسکے نتیجے میں طوق وسلاسل اور کشت وخون کی آزمائش! کون نہیں جانتا کہ ان سب کی بنیادوں میں اسی تصوف اور صوفیاء کی روح بھری ہوئی ہے ۔ جس کو آج گلے کا پورا زور اور قلم کی پور ی طاقت لگاکر مطعون کیا جارہاہے ۔ ابھی کتنے دنوں کی بات ہے کہ جب کمیونزم کا طلسم ٹوٹا۔ سوویت یونین اس کے نتیجے میں بکھرا اور اسکے بکھرتے ہی دس گیارہ مسلم ریاستیں صفحہ ہستی پر ابھر آئیں ۔ مشہور تھا کہ کمیونزم نے خدا کو حدود روس سے نکال دیا ہے اور خداکے ماننے والوں کا گلا گھونٹ دیاہے ۔ اب وہاں کوئی اسلام کا نام لیوا نہیں رہا ۔ستر سال تک اسلام کی ہر آواز کو دبایا اور مٹایا گیا اور ان زبانوں کو کاٹ ڈالا گیا جن پر اسلام کا نام آیا اور اس گلے کو تراش دیا گیا جس سے ایمان کی آواز نکلی ۔ لیکن اچانک یہ کیا ہوا کہ اس طلسم کے ٹوٹتے ہی ایمان واسلا م کے متوالوں کی اتنی بڑی تعداد نکل آئی کہ انہیں دس گیارہ ریاستوں کی سربراہی حاصل ہوگئی ۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے جناب حبیب الحق صاحب مرحوم پروفیسر ڈربن یونیورسٹی کو،وہ انہیں دنوں اعظم گڑھ دارالمصنفین میں تشریف لائے تھے ۔انہوں نے تعلیم یافتہ طبقہ کے ایک معقول مجمع میں ان ریاستوں کے حالات سنائے اور اخیر میں انہوں نے بتایاکہ اتنی تعداد میں روس کے جورو استبداد کے باوجود اسلام کے ماننے والے باقی کیسے رہ گئے ۔وہ بتارہے تھے کہ کیسے گھروں کی کال کوٹھریوں میں ہلکے چراغ جلاکر بچوں کو قرآن پڑھایا جاتاتھا ۔ جنگلوں ، پہاڑوں کی وادیوں اور صحراکے سناٹے میں کس طرح جیالی مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کچھ فقیروں اور ملائوں کے سپرد کردیتی تھیں کہ وہ انہیں آبادیوں سے دور، تمدن اور تمدن کے جلوئوں سے دور قرآن اور دین کی تعلیم دیں ۔یہ بچے گھر سے نکل جاتے اور پھر برسو ں گھر کی دید سے محروم رہتے۔ یہ کہتے کہتے انہوں نے نہایت موئثرانداز اور درد بھرے لہجے میں کہاکہ آج کچھ