تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور کبھی جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے مبتلا ئے مشقت نظر آتے ہیں ۔ ستم ظریفوں کی ایک ٹولی نے تصوف وسلوک پر تعطل و بیکاری کا الزام رکھا ہے ۔ کسی نے اس پر چنیا بیگم کی پھبتی کسی ہے۔ زندگی اور جہاد زندگی سے اس کو فرار سے تعبیر کیا ہے کسی نے وسعت افلاک میں تکبیرمسلسل کے بالمقابل خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات قرار دیا ہے ۔ کسی نے انہیں سربجیب دیکھا تو بد گمانی قائم کرلی کہ یہ کبھی سربکف ہوہی نہیں سکتے۔ معتقدوں کو کبھی دست بوسی کرتے دیکھا تو چیخ اٹھے کہ یہ کبھی دارو رسن کو چوم ہی نہیں سکتے۔ لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ یہ لوگ تاریخ کے آئینے سے نظر یں چراتے ہیں ۔ جوانہیں نمایاں طور پر دکھاتا ہے کہ اگر دین کے نام پر کسی گروہ نے جان کی بازی لگائی ہے اورجہاد کے میدان میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہایا ہے تو زیادہ تر یہی صوفیاء کا مقدس گروہ رہا ہے۔ جو کبھی … خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات میں مشغول رہتے ہیں ۔ تو دوسرے وقت وہی وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل کا عمل بھی جاری کرتے ہیں ۔ کم از کم ہندوستان میں ہی حضرت مجدد الف ثانی سے لے کر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا محمد الیاس صاحب تک کودیکھ لیں ۔ مجدد صاحب اور ان کے عالی مقام صاحبزادگان اور ان کے اخلاف واحفاد پھر شاہ ولی اللہ الدہلوی اور ان کے نامور فرزندان گرامی اور حفید ر شید مولانا محمد اسماعیل شہیداور شاہ عبد العزیز صاحب کے خلیفہ حضرت سید احمدشہیدپھرانکے متوسلین کاسلسلہ اسکے بعد حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی ،حضرت حافظ ضامن شہید ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور دوسرے اکابریہ سب لوگ تصوف وسلوک کے پروردہ اور اسکے لذت آشنا تھے ۔ یہ راتیں تسبیح ومناجات میں گزارتے اور دن کو میدان جہاد کے شہ سوار ہوتے ۔آج انہیں کے خون گرم کا فیضان ہے کہ اس ملک میں دین وایمان کی حرارت پھیلی ہوئی ہے ۔