تصوف ایک تعارف |
صوف پر چ |
|
حضرت شاہ صاحب کے خلیفۂ اول حضرت مولانا امیر باز خاں صاحب تھے، خلیفہ دوم حضرت مولانا عبد اﷲ صاحب اور خلیفۂ سوم حضرت مولانا شاہ ابوالحسن صاحب سہارنپوری تھے، حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری بھی ان کے خلیفہ تھے، یہ حضرات جامعہ مظاہر علوم کے فیض یافتہ تھے، اور حضرت سے رشد و ہدایت اور سلوک وطریقت کا فیضان عام ہوا، ۱۳۴۳ھ میں رحلت فرمائی۔ علماء مظاہر علوم کی ایک بڑی تعداد ہے، جن کے ذریعے سے تصوف و طریقت اور ذوق احسان و سلوک عام ہوا، ان کے فیض سے مردہ قلوب نے زندگی پائی، ان کے انوار نسبت سے خطے کا خطہ منور ہوا، انہیں اگر ہم گننا بھی چاہیں تو گن نہیں سکتے، ۱۲۸۳ھ سے ۱۴۲۶ھ تک ۱۴۳ سال کا طویل عرصہ ہے، اس عرصہ میں اﷲ ہی جانتا ہے کتنے روحانیوں نے جامعہ مظاہر علوم میں تربیت پائی ہوگی۔ اور شریعت و طریقت کا چشمہ شیریں ان کے فیض سے جاری ہوا ہوگا۔ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری، حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی، حضرت مولانا عبد الجبار صاحب اعظمی، حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب بلند شہری، حضرت مولانا عبید اﷲ صاحب بلیاوی، حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی، حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی، حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کاندھلوی، حضرت مولانا محمد فاروق صاحب الٰہ آبادی، حضرت مولانا قاری حبیب احمد صاحب الٰہ آبادی رحمہم اﷲ۔ یہ حضرات وہ ہیں جنھوں نے تصوف و سلوک کی راہ سے بزرگوں کی صحبت میں رہ کر خود بھی نسبت باطنی حاصل کی، اور ان کے واسطے سے بہتوں کو فیض پہنچا۔ ایک حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہٗ سے یہ سلسلہ مبارکہ جو چلا ہے، تو اس کے حدود ملک سے باہر اقصائے ایشیا اور یورپ اور افریقہ بلکہ امریکہ تک پھیل گئے ہیں ۔ حضرت شیخ کے خلفاء ومتوسلین۱؎ ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں ، حضرت مفتی محمود حسن صاحب، حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب، حضرت مولانا ابرارالحق صاحب اور دوسرے اکابر